سیاست جموں وکشمیر تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور تقسیم برصغیر کے بعد اس کے بڑے حصے پر سازش، چال بازی اور مکاری سے دشمن نے قبضہ کرلیا کشمیر کو دو طرح کے آلام ومصائب کا سامنا ہوا بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارتی فوج کے جبر اور بربریت کا سامنا کرنا پڑا، اس پُر آشوب دور میں کشمیر کے صوبہ جموں سے جن رہنمائوں نے تاریخ ساز جدوجہد اور اپنے لازوال کردار وعمل سے خدمات سرانجام دیں ان میں میر پور کے چوہدری نور حسین کی خدمات تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف میں لکھی جائیں گی اس نوجوان رہنما کی ولولہ انگیز انقلابی خدمات اس وقت عوامی سطح پر نکھر کر سامنے آئی جب قیام پاکستان کی تحریک چلی تو کشمیریوں نے بھی برابر اس میں حصہ لیا اس دور میں چوہدری نور حسین نے اہل میرپور کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد میں قابل داد کردارادا کیا وہ اپنی نمایاں خدمات اور جدوجہد کی بدولت عوام میں مقبول ہوگئے ان کی سیاسی زندگی وہ اہم اجلاس ہے کہ جب 19 جولائی 1947 کو سری نگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور ہوئی اس پر چوہدری نور حسین نے بھی دستخط کیے تھے اور میرپور کی نمائندگی کی تھی معاشی لحاظ سے خوشحال پاکستان کے حامی تھے ان کا یہ ماننا تھا کہ پاکستان معاشی واقتصادی لحاظ سے مضبوط ہوگا تو تحریک آزادی کشمیر جلد منطقی انجام تک پہنچے گی اور انہوں نے تحریک یا ان کے ایک اہم لیڈر حسین شہید سہروردی سے برابر رابطہ رکھا ہوا تھا اور سہروردی مرحوم چوہدری نور حسین کی آزادانہ صلاحیتوں کے نہ صرف معترف تھے بلکہ انہیں نکھارنے کے لئے انہوں نے سرپرستی بھی کی تھی چوہدری نور حسین کی جدوجہد سے آمر حکمران خائف رہتے تھے جس وجہ سے انہیں برطانیہ میں جلد وطنی کی زندگی بھی گزارنا پڑی اور جب وطن میں تشریف لائے تو عوام نے ان کا تاریخ ساز استقبال کیا راولپنڈی ائر پورٹ سے میرپور اور آزاد کشمیر کے دیگر شہروں سے عوام کا ایک طوفان گویا امڈ آیا تھا اور لوگ جذباتی نعرے لگارہے تھے اس تاریخی استسقبال نے ان کے کامیاب سیاسی مستقبل کی بنیاد رکھ دی تھی غازی ملت سردار ابراہیم خان سے چوہدری نور حسین کے گہرے ذاتی و سیاسی مراسم تھے، سردار صاحب پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تو آزاد مسلم کانفرنس کی قیادت چوہدری نور حسین نے سنبھال لی اس سے قبل وہ آزاد کشمیر کے وزیر بھی رہے اور آزاد مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے وہ وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر بھی رہے چوہدری نور حسین نے سیاست میں اصولوں اور اعلی اخلاقی اقدار کی پاسداری کی جب وفاق نے آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم کو برطرف کیا تو چوہدری نور حسین نے اسے آزاد کشمیر کے ریاستی تشخص پر حملہ قرار دیا اور صدائے احتجاج بلند کی ،چوہدری نور حسین کے اس دلیرانہ موقف واعلیٰ کردار سے متاثر ہوکر سردار عبدالقیوم نے انہیں قائد جمہوریت کے خطاب سے نوازا تھا، قبائلی دور میں انہوں نے سردار محمد ابراہیم ،سردار عبدالقیوم اور عبدالخالق انصاری کے ساتھ ایک چار جماعتی اتحاد قائم کرکے آمریت کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی چوہدری نور حسین وقت کے فرعونوں کے خلاف عوامی جذبات ابھارنے اور اسے جانبدار تحریک کی شکل دینے کا ملکہ رکھتے تھے اور عوام ان کی قیادت پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے 1985 کے انتخابات سے قبل ان کے صاحبزادہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری برطانیہ سے تعلیم مکمل کرکے واپس وطن آئے تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیااور بنک سکوائر نانگی میرپورپور شہر کے جلسہ میں جب عوام نے بڑے جلسہ میں انہیں آزاد مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا تو اس وقت قائد ملت چوہدری نور حسین کا تاریخی خطاب رقت آمیزبھی تھاانہوں نے عوام سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں نےہمیشہ جان ہتھیلی پر رکھ کر ریاستی تشخص قومی وقار اور آپ کے حقوق کی جنگ لڑی ابمیں سیاست سے کناہ کش ہوکر قیادت آپ کی منظوری سے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو سونپ رہا ہوں۔ انہوں نے دردبھری آواز میں کہا کہ لوگو میرا ایک ہی بیٹا تھا وہ میں آپ کے حوالے کررہا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ اس کا ساتھ دینگے اور یہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا اس کے بعد قائد ملت چوہدری نور حسین نے سیاسی معاملات سے عملا کنارہ کشی اختیار کرلی تاہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے انہوں نے عوامی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے پونہ کے مقام سے کنٹرول کراس کی تھی یہ چوہدری نور حسین کی اعلیٰ سیاست، تربیت اور عوام کی حمایت وتعاون ہی تھا کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا میاب سیاسی سفر طے کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا دور حکومت 1996تا2001 ایک مثالی دور تھا اور آج کل کرپشن خوری میں لتھڑے حکمران عوام سے منہ چھپاتے پھررہے ہیں لیکن بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے اجلے سیاسی کردار پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا، سیاسی زندگی سے کنارہ کشی کے بعد چوہدری نور حسین عبادات وریافت اور روحانیت کی طرف مائل ہوگئے تھے، نماز پنجگانہ، تہجد اور ذکرو ازکار وظائف ان کا روز کا معمول تھا وہ اولیا کاملین اور بزرگان دین سے عقیدت رکھتے تھے، حضرت پیرا شاہ غازی قلندر دمڑیاں والی سرکار اور حضرت میاں محمد بخش کے مزار کھڑی شریف میں کئی بار چلہ کشی کی وہ اکثر وبیشتر دربار گولڑہ شریف ، دربارہ حضرت سلطان باہو اور دربار گلہار شریف کے سفر میں رہتے تھے وہ خاندان کے تمام افراد پر زور دیتے تھے کہ اللہ کی برگزیدہ ہستیوں سے عقیدت رکھتے ہوئے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے بالخصوص ہر ماہ چاند کی پہلی جمعرات وہ اپنے پوتے جنید وقاص کے ساتھ دن بھر دربار کھڑی شریف میں حاضر رہتے تھے۔ قائد ملت قائد جمہوریت چوہدری نور حسین کی تحریک آزادی کشمیر اور عوامی خدمات ناقابل فراموش ہیں مگر بدقسمتی سے اس بلند پایہ سیاسی عوامی اور تاریخی شخصیت کی عظیم جدوجہد کو احاطہ تحریر میں نہ لایا جاسکا اور آنے والی نسلیں چوہدری نور حسین کی جدوجہد سے مکمل طورپر آگاہی حاصل نہیں کرپائیں، آزاد کشمیر کے سیاسی افق کا یہ ستارہ 16فروری 2014 کو غروب ہوگیا اور قائد ملت ، قائد جمہوریت چوہدری نور حسین نے اس عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی جانب سفر اختیار کیا۔ ہزاروں اشکبار آنکھوں کے ساتھ چیچیاں کھڑی شریف میں اپنے والد چوہدری نیک عالم کے پہلو میں دفن کیا گیا ان کا جسد تو ہم میں نہ رہا مگر ان کے افکار وخیالات ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔
.