سکھر (بیورو رپورٹ)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف داخلہ اور خارجہ پالیسی ایک پیج پر تشکیل دینا ہو گی ہم نے بارہا کہا ہے کہ پنجاب میں دہشتگردوں کی نرسریاں ہیں حکومت کالعدم تنظیموں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے رہی ہے، وزارت داخلہ کالعدم تنظیموں کی وکالت کرتی ہے، اگران چیزوں کو نہ روکا گیا تو حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے، پڑوسی ملک پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی عوام ڈر اور خوف میں رہیں، بھوک و افلاس میں رہیں، آج تک سندھ میں رینجرز آپریشن کررہی ہے، چھ دن دیر ہوجائے تو میڈیا ہیڈ لائن بنادیتی ہے کہ ابھی تک رینجرز کو اختیارات نہیں دیئے گئے۔ وہ سکھر کے نواحی علاقے علی واہن میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ خورشید احمد شاہ نے کہا کہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا وجہ ہے کہ بیرون ممالک پاکستان کو کیوں خطرہ سمجھتے ہیں، دیکھنا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی، اپنی آئیڈیالوجی، ایٹمی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس طرح آگے بڑھتا ہے، دنیا ہمیں نیو کلیئر پاور سمجھتی ہے کچھ اس خوف سے ہمیں غیر مستحکم بھی کرنا چاہتے ہیں،کسی کو پاکستان کی ترقی پسند نہیں، کسی کو یہ ڈر ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری بہت ہوگی یہاں خوشحالی آجائے گی، بہتری کی وجہ سے پاکستان آگے بڑھ جائے گا اور دنیاکی توجہ کا مرکز بن جا ئے گا جو ہونا بھی چاہیئے مگر ہم نے اس طرف نہیں دیکھا، ہماری خارجہ پالیسی اس معاملے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہو یا وزیر داخلہ ہو یہ حکومتیں ہوتی ہیں، فرد کوئی حکومت نہیں ہوتا، چاہے وزارت داخلہ کی ناکامی حکومت کی ناکامی ہوتی ہے، اوروزیراعظم کی ناکامی بھی حکومت کی ناکامی ہوتی ہے،بارہا اس بات پر میں نے دباؤ ڈالا ہے، بار بار یہ بات کرتا ہوں کہ پارلیمنٹ میں بھی کہ اس کو آپ لوکل سطح پر نہ دیکھیں قومی سطح پر دیکھیں کہ دنیا میں پاکستان کے لئے کیا سوچا جا رہا ہے، کیا پلان کیا جارہا ہے، کیا وجہ ہے کہ پاکستان کو ستر سال مکمل ہونے کو آئے ہیں پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں ہے جن ملکوں میں پاکستان 1960اور70 کی دھائی میں بہت سے ملکوں نے پاکستان کا ماڈل خود کو بنایا، ایئرلائنز اپنی بنائیں، ہماری پالیسز اپنائیں، ہماری انڈسٹریز پالیسی اپنائیں، ہم پیچھے رہتے گئے اور وہ آگے بڑھتے گئے، ہمیں اس تناظر میں دیکھنا چاہیئے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے، میں یہ بھی کہتا ہوں کہ یہ صرف داخلہ کا مسئلہ نہیں ہے یہ خارجہ پالیسی کا بھی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات لاہور، سندھ، بلوچستان اور کوئٹہ میں حالیہ کتنے واقعات ہوئے کیوں کر ہوئے کہ کوئی بات نہیں کی جارہی، ہم نے نیشنل ایکشن پلان پر باتیں کیں، پارلیمنٹ کے اندر باتیں ہوئیں، اے پی سی میں باتیں ہوئیں اور یہ بھی کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر کام نہیں ہورہا ہے یہ بہت سی وجوہات ہیں جن سے ہم خطرات کو محسوس کررہے ہیں،ہمیں خوف ہے بڑا ڈر ہے کہ جس طرح کا الجھاؤ پیدا ہورہا ہے اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جارہا ہے کہ مسجدوں میں نہ جائیں، گھروں سے نہ نکلیں، اسکولوں میں نہ جائیں یہ خوف و ہراس ہے کچھ گروہ ہیں جو یہ سب کچھ کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ ایسے حالات الیکشن تک پیدا کئے جائیں کہ من پسند پارٹیوں کو لایا جائے پھر وہ پیپلزپارٹی کو تھریٹ دیا جائے کہ باہر نکلو گے تو کچھ ہوگا، پیپلزپارٹی پہلے بھی بھگت چکی ہے، بھٹو شہید کے روپ میں، بی بی کے روپ میں، 45 ہمارے اسلام آباد میں ورکرز، کراچی میں سانحہ کارساز کا واقعہ ہوا اور ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں کارکنان نے جانوں کے نذرانے پیش کئے خوف نہیں کرنا چاہیئے۔