کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کیخلاف فیصلہ کن اقدام کیلئے حالیہ دہشتگرد ی کی لہر سے قبل ہی بات چیت ہورہی تھی، ایبٹ آباد واقعہ کے بعد پارلیمنٹ نے مشترکہ قرارداد منظور کی تھی کہ پاکستان اپنی سرز مین کسی ملک کیخلاف استعمال کرنے نہیں دے گا، ہمارے پاس مستند شواہد ہیں کہ دوسرے ممالک پاکستان میں دہشتگرد ی میں ملوث ہیں، دوسرے ممالک پاکستان میں دہشتگردی کو باہر سے فائنانس اور کنٹرول کررہے ہیں اور خود بھی ملوث ہیں، حالیہ واقعات میں لاہور دھماکا اور حیات آباد پشاور دھماکے میں بیرونی قوتوں نے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کو 76افراد کی حوالگی کیلئے فہرست دی ہے جو اس کی سرزمین پر موجود ہیں، اگر ان کے پاس پاکستان کی سرزمین سے وہاں کارروائیوں میں ملوث افراد کے شواہد ہیں تو ہم انہیں خوش آمدیدکہیں گے، ایک دھماکا اِدھر تو ایک دھماکا اُدھر کا سلسلہ نہیں چلے گا، دہشتگردوں میں اچھے اور برے دہشتگردوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ دہشتگردی پر قابو پالیا تو دو دہائیوں میں پاکستان دنیا کی سترہویں بڑی معیشت بن جائے گا، مستند شواہد ہیں کہ شمالی سرحدوں سے چند ہزار گز کے اندر دہشتگردوں کے تربیتی کیمپس کام کررہے ہیں، اگر افغان اور نیٹو فورسز ان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی نہیں کرتیں تو پاکستان آنکھیں بند نہیں کرسکتا ہے، پاکستان کی بہادر افواج نے دہشتگردوں کیخلاف سرحد پار جاکر ایکشن لیا ہے، پاکستان اور افغانستان مل کر دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کریں تو بہترین ہوگا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ضرب عضب انتہائی کامیاب آپریشن رہا ہے، اب پورے ملک میں ایک آپریشن کی ضرورت ہے، دہشتگردوں نے پورے ملک میں منصوبہ بندی سے حملے کئے ، اگر ہم نے دہشتگردوں کو جارحانہ طریقے سے جواب نہیں دیا تو معاملہ نہیں رُکے گا، آپریشن ردالفساد کافی حد تک نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے، نیشنل ایکشن پلان پر اب واضح انداز میں تیزرفتار عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وفاقی حکومت کی پالیسی اور حالات کو دیکھتے ہوئے رینجرز آپریشن کی مکمل حمایت کی ہے۔ مسعود اظہر سے متعلق سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ماضی میں ایسی جو تنظیمیں سرگرم رہی ہیں انہیں ریاست کے سامنے سرینڈ ر کردینا چاہئے ،ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کوشش نہ کی جائے، جماعت الدعوۃ اور ایف آئی ایف اور کچھ لیڈر واچ لسٹ پر آچکے ہیں، اب پورے ملک میں صرف ریاست کی پالیسی چلے گی، حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ مل کر دہشتگردی کو ملک سے اکھاڑنا ہوگا، فوجی عدالتوں کی توسیع کیلئے بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں کیخلاف بے رحمانہ کارروائی کے علاوہ ہمارے پاس چوائس نہیں ہے، ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوتے یا نہ ہوتے ہمیں اپنی کارروائی کرنی ہی تھی، سول ملٹری لیڈر شپ اس وقت ایک صفحہ پر ہے، دہشتگردی کے حالیہ واقعات نہ بھی ہوتے تو ہم یہی اقدامات اٹھاتے جو ابھی کئے ہیں، دہشتگر دی کیخلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ دفاعی تجزیہ کار شہزاد چوہدری نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد میں بہت فرق ہے، آپریشن ضرب عضب کا مقصد دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کر کے ریاست کی رِٹ قائم کرنا تھا، آپریشن ردالفساد کا مقصد کاؤنٹرٹیرراور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہے، آپریشن ردالفساد پاکستان کے اندر موجود آلائشوں کی صفائی کا عمل ہے، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان جہاں ملتے ہیں وہاں دہشتگردوں کا گڑھ ہے، دہشتگردی کیخلاف پوری قوم حکومت اور افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید نے کہا کہ ملک بھر میں موجود دہشتگردوں کے سلیپرسیل ختم کرنے کیلئے آپریشن ردالفساد کا فیصلہ کیا گیا ہے، ابھی تک ہونے والے تمام آپریشنز کاؤنٹر انسرجنسی کے تھے،یہ آپریشنز ان علاقوں میں کئے گئے جہاں دشمن ہمارے علاقوں پر قابض تھا اور ان سے وہ علاقہ چھڑایا جانا تھا، پنجاب میں آپریشن میں لیڈ رول سی ٹی ڈی کو دینا چاہئے، ہمارا قومی سلامتی پالیسی بنانے کا ذمہ دار ادارہ ابھی تک فعال نہیں ہوا ہے، دہشتگردوں کی آماجگاہیں ایسی جگہوں پر ہیں جہاں پولیس کا عمل دخل نہیں ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن رد الفساد کا آغاز پورے ملک خصوصاً پنجاب سے کیا گیا ہے۔دہشتگردی کی نئی لہر کے بعد پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ردالفساد شروع کردیا ہے، وزیراعظم کی طرف سے آرمڈ فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشتگردوں کو نشانہ بنانے کا مکمل اختیار دیدیا گیا ہے، آپریشن رد الفساد ماضی کے آپریشنوں سے کئی لحاظ سے مختلف اور منفرد ہے، ماضی میں بھی جتنے بھی آپریشن ہوئے وہ کسی خاص علاقے کیلئے ہوئے جہاں ریاست پاکستان کی رِٹ قائم کی گئی، ان آپریشن میں پہلا آپریشن 2007ء میں سوات میں آپریشن راہِ حق کے نام سے کیا گیا، 2008ء میں باجوڑ ایجنسی میں آپریشن شیردل کیا گیا، 2009ء میں سوات میں ہی آپریشن راہِ راست کیا گیا جو منطقی انجام تک پہنچا اور سوات میں دہشتگردوں کا صفایا ہوگیا، 2010ء میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہِ نجات شروع کیا گیا، اس کے علاوہ 2014ء میں قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں خیبر ون، خیبر ٹو اور خیبر تھری کیا گیا، 15جون 2015ء کو کراچی ایئرپورٹ حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا،یہ آپریشن بھی شروع میں شمالی وزیرستان تک محدود رہا۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ آپریشن رد الفساد کا آغاز پورے ملک خصوصاً پنجاب سے کیا گیا ہے، اس آپریشن کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس میں پاک فضائیہ، پاک بحریہ، سول فورسز اور دیگر سیکیورٹی ادارے حصے لیں گے، پنجاب میں رینجرز کے بڑے پیمانے پر انسداد دہشتگردی آپریشن، ملک بھر میں جاری آپریشن اور بارڈر سیکیورٹی مینجمنٹ آپریشن ردالفساد کا حصہ ہوں گے، پریس ریلیز میں سرحدوں کے حوالے سے خصوصی ذکر کیا گیا ہے اور پہلے ہی سرحدوں پر غیرمعمولی اقدامات کیے جارہے ہیں ،آئی ایس پی آر کے مطابق ملک بھر کو اسلحے سے پاک کرنا اور بارودی مواد پر کنٹرول اس آپریشن کا اہم حصہ ہوگا ، اس کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اس آپریشن کی خاصیت ہوگی۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ پنجاب میں رینجر ز آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا،پولیس افسران پر خودکش حملے کے بعد پنجاب حکومت نے صوبے میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے رینجرز سے مدد لینے کا فیصلہ کرلیا ہے، وفاقی وزیرداخلہ نے پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جس کے مطابق صوبے میں رینجرز کے دستوں کی تعیناتی 60 دن کیلئے کی گئی ہے، پنجاب میں رینجرز کے 3ہزار 500افراد اور جوانوں پر مشتمل پانچ ونگ تعینات کیے جائیں گے۔ شاہز یب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاناما کیس اب فیصلے کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے، تمام فریقین اور اٹارنی جنرل کے بعد اب درخواست گزاروں کے جوابی دلائل شروع ہوگئے ہیں جو آج مکمل ہوجائیں گے جس کے بعد سماعت مکمل ہونے کا امکان ہے، کل کی سماعت میں چیئرمین نیب کے جواب پر عدالت کی برہمی بدھ کو بھی دکھائی دی، عدالت بار بار چیئرمین نیب پر تنقید کرتی رہی لیکن اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ عدالت مفروضوں کی بنیاد پر وزیراعظم کے خلاف فیصلہ نہیں کرسکتی ہے۔