• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر خزانہ اسحق ڈار نے معیشت کے شعبے میں کامیابیوں کا دعویٰ کرتے ہوئے پرائس واٹر ہائوس کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ قیمت خرید کی مسابقت یعنی جی ڈی پی، پی پی پی کے لحاظ سے 2030تک پاکستان دنیا کی 20ویں اور 2050تک 16ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ ہم پوری ذمہ داری سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیںکہ یہ کوئی کامیابی نہیں ہوگی۔ آبادی کے لحاظ سے اس وقت چین دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور پرائس واٹر کی رپورٹ کے مطابق 2050ء میں چین ہی دنیا کی سب سے بڑی معیشت رہے گا۔ آبادی کے لحاظ سے بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور 2050ء میں بھارت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہوگا۔ آبادی کے لحاظ سے امریکہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور 2050ء میں امریکہ ہی دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہوگا۔ آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک انڈونیشیا 2050ء میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت، آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک برازیل ہی 2050ء میں دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہوگا۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ یہ امر ہر پاکستانی کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے کہ ان چھ ملکوں میں پاکستان واحد ملک ہے جو آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہونے کے باوجود 2050ء میں دنیا کی چھٹی بڑی معیشت نہیں بلکہ 16ویں بڑی معیشت ہوگا۔
پرائس واٹر ہائوس کی رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ان چھ بڑے ملکوں میں 2016ء اور 2050ء کے 34برسوں میں معیشت کے حجم میں جو اضافہ ہوگا وہ یہ ہے۔
1۔ چین میں اضافہ: 37230 ارب ڈالر
2۔ بھارت میں اضافہ: 35407ارب ڈالر
3۔ امریکہ میں اضافہ: 15540ارب ڈالر
4۔ انڈونیشیا میں اضافہ: 7474ارب ڈالر
5۔ برازیل میں اضافہ: 4405ارب ڈالر
6۔ پاکستان میں اضافہ: 3248ارب ڈالر
مندرجہ بالا اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان چھ ملکوں میں پاکستانی معیشت کے حجم میں سب سے کم اضافہ ہوگا۔ پرائس واٹر ہائوس کی رپورٹ کے مطابق2016 میں بھارت کی معیشت کاحجم پاکستانی معیشت کے حجم سے 7733 ارب ڈالر زیادہ ہے مگر 2030ء میں بھارتی معیشت کاحجم پاکستانی معیشت کے حجم سے 17643ارب ڈالر زیادہ ہو جائے گا۔ یہی نہیں 2050ء میں بھارتی معیشت کا حجم 44128ارب ڈالر اور پاکستانی معیشت کا حجم 4236ارب ڈالر ہوگا یعنی ان دونوں ملکوں کی معیشتوں کے حجم کا فرق جو 2016ء میں 7733ارب ڈالر تھا۔ 2050ء میں بڑھ کر 39892 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ ان اعداد و شمار میں پاک چین اقتصادی راہداری کے ثمرات کہیں نظر نہیں آرہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے چنانچہ پاکستان بھارت کے جنگی بجٹ اور جنگی تیاریوں پر نظر رکھتا ہے اور اپنے دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ کرتا رہتا ہے مگرہم بھارت اور پاکستانی معیشتوں کے حجم کے فرق کے طوفانی رفتار سے بڑھنے کے مضمرات و خطرات سے نمٹنے کے حکمت عملی واضح کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہے بلکہ الٹا اپنی معاشی کامیابیوں کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہا۔
پرائس واٹر ہائوس کی رپورٹ کے مطابق چند منتخب ملکوں کی فی کس سالانہ آمدنی کے چند حقائق نذر قارئین ہیں:
1۔ 2016ء میں پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی بہ لحاظ جی ڈی پی بنگلہ دیش سے زائد تھی مگر 2020ء میں بنگلہ دیش پاکستان سے آگے نکل جائے گا۔
2۔ 2020ء میں 189ملکوں میں سے 132ملکوں کی فی کس سالانہ آمدنی پاکستان سے زیادہ ہوگی۔ ان ممالک میں سری لنکا، مصر، انڈونیشیا، سوڈان، بھوٹان، نائیجیریا، ویت نام، جبوتی، بھارت اور کینیا شامل ہیں۔
3۔ بھارت ابھی جی ڈی پی، پی پی پی کے لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے مگر فی کس سالانہ آمدنی کے لحاظ سے189ملکوں میں سے 125ممالک کی یہ آمدنی جنگی جنون میں مبتلا بھارت سے زیادہ ہے۔
اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ آبادی کے لحاظ سے 2017ء میں 25بڑے ممالک ہی پرائس واٹر ہائوس کی رپورٹ کے مطابق 2050ء میں دنیا کی 25بڑی معیشتوں میں شامل ہوں گے سوائے تنزانیہ، کانگو اور جنوبی افریقہ کے۔ رپورٹ کے مطابق اس لحاظ سے ان تین ملکوں کے بعد بدترین پوزیشن بنگلہ دیش اور پاکستان کی ہوگی کیونکہ آبادی کے لحاظ سے بالترتیب آٹھویں اور چھٹی معیشت ہونے کے باوجود وہ 23ویں اور16ویں بڑی معیشت ہوں گے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی وغیرہ کی رپورٹوں کے صرف مثبت نکات کی حکومت تشہیر کرتی رہی ہے مگر ان رپورٹوں میں معیشت کے ضمن میں بین السطور جن تحفظات و خدشات کا ذکر ہوتا ہے میڈیا میں بھی ان کا ذکر ہو ہی نہیںرہا۔
وطن عزیزمیں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی ہوئی ہے۔ سیہون شریف میں دہشت گردی کی خوف ناک واردات کے بعد آرمی چیف جنرل باجوہ نے کہا کہ قوم کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیا جائے گا۔ حکومت نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کے منطقی انجام تک جاری رہے گی۔ ہم بہرحال گزشتہ 10 برسوں سے کہتے رہے ہیں کہ صرف طاقت کے استعمال سے نہ تو دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی کی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ ہم یہ تجویز بھی دیتے رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کی تیزی سے واپسی (استعماری طاقتوں کے دبائو پر پاکستان عملاً یہ مطالبہ کر ہی نہیں رہا) اور پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ اول دہشت گردوں کو ملنے والی مالی معاونت روکی جائے اور دوم انتہا پسندی پر قابو پانے کے لئے غربت اور احساس محرومی کو ممکنہ حد تک کم کرنے کے لئے وفاق اور صوبے اپنے مالی وسائل میں اضافہ کریں۔ پاکستان میں ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب انتہائی کم ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے چند روز قبل کہا کہ لوگ ٹیکس اس لئے نہیں دیتے کہ انہیں حکمرانوں پر اعتماد نہیں ہے۔ انہوں نے بہرحال اس حقیقت کو یکسر نظرانداز کردیا کہ خیبر پختونخوامیں صوبائی ٹیکسوں کی وصولی کی صورتحال دوسرے صوبوں اور وفاق سے بہتر نہیں ہے۔
پاکستان کی سول و عسکری قیادت کئی برسوں سے دہشت گردوں کی فنانسنگ روکنے کے عزم کا اظہار کرتی رہی ہے مگر موثر اقدامات ابھی تک نظر نہیں آرہے۔ اس ضمن میں جو بنیادی شرائط ہیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
1۔ معیشت کو دستاویزی بنانا، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کو لازماً منسوخ کرنا۔
2۔ بینکوں کے چیک اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے لین دین کو فروغ دینا اور بڑی رقوم کے پرائز بانڈزواپس لینا۔
3۔ کرپشن اور ٹیکس چوری کی رقوم کو قانونی طریقے سے ملک سے باہر منتقلی روکنے کیلئے قوانین میں ترمیم کرنا۔
4۔ اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ و اوور انوئسنگ کو کنٹرول کرنا۔
5۔ وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پرٹیکس نافذ اور وصول کرنا۔
6۔ دہشت گردوں کی فنانسنگ کو روکنا۔
اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مسئلہ صرف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا نہیں بلکہ مندرجہ بالا نکات کو اس میں شامل کر کے اس پلان کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کا ہے۔ ان اقدامات سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوں گے مگر ان سے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے گا اور پاکستان جوہری طاقت کی طرح معاشی قوت بن کر ابھرے گا۔

.
تازہ ترین