• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ ن نے 2013میں اقتدار سنبھالا تو امن وامان کی بہتر صورتحال ایک بڑا چیلنج تھی۔ سندھ میں ریاستی رٹ قائم کرنے کے لئے کراچی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے امن و عامہ سے متعلق اختیار آرٹیکل 147کے تحت وفاقی حکومت کے سپرد کر دیا۔ وفاقی حکومت نے سندھ رینجرز کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے کراچی میں آپریشن کا اختیار دیا۔ وفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت ادارے رینجرز نے کراچی میں بڑے پیمانے پر آپریشن اور گرفتاریوں کے سلسلے کا آغا زکیا تو کئی سیاسی شخصیات بھی اس کی لپیٹ میں آئیں۔ پھر آپریشن کا رخ احتساب کی طرف موڑا گیا تو پیپلزپارٹی کی طرف سے شدید رد عمل آیا۔ ڈاکٹر عاصم سمیت پی پی کے رہنماؤں کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو شدت سے مطالبہ کیا گیا کہ رینجرز پنجاب میں کارروائیاں کیوں نہیں کرتی؟ سینئر عسکری حکام کی جانب سے بھی پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کے حوالے سے بار بار کہا جاتا رہا۔ مگر ایک عمومی تاثر ابھرا کہ رینجرز چونکہ وفاقی ادارہ ہے اور وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ اس لئے حکمران جماعت پنجاب میں رینجرز آپریشن کی حامی نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پنجاب کا کسی بھی طرح سے ملک کے دیگر صوبوں سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ حقائق یہ ہیں کہ اس ملک میں گزشتہ دو سالوں کے دوران پنجاب سی ٹی ڈی نے سب سے زیادہ دہشتگرد ہلاک کئے ہیں۔ کالعدم تنظیم کے دہشتگرد سربراہ کو بھی رحیم یار خان میں سی ٹی ڈی پنجاب نے مارا تھا۔ پنجاب سی ٹی ڈی کی دہشتگردوں پر دھاک کا عالم یہ ہے کہ لاہور خودکش دھماکے کے بعد دہشتگرد تنظیم جماعت الحرار نے جو پہلی پریس ریلیز جاری کی تو اس میں لکھا گیا تھا کہ آج کی کارروائی میں سی ٹی ڈی کے کیپٹن (ر) مبین بھی نشانہ بنے ہیں۔ حالانکہ شہید پولیس آفیسر کیپٹن (ر) مبین چونکہ سی ٹی او( سٹی ٹریفک آفیسر) تھے۔ مگر دہشتگردوں کے دماغ پر سی ٹی ڈی کا اس حد تک خوف ہے کہ انہوں نے ٹریفک پولیس کے سی ٹی او کوسی ٹی ڈی سمجھا۔ ملک کے چاروں صوبے ہمارے ہیں اور دہشتگردی کے ہر واقعہ کی مذمت کرنی چاہئے،مگر لاہور دھماکے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بیانات کا طوفان امڈ آیا کہ دہشتگردوں کی اصل پناہ گاہیں پنجاب میں ہیں۔ مگر پھر اگلے ایک ہفتے کے دوران پورے ملک میں جو کچھ ہوا۔ اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا تھا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور دیگر ادارے شاباش کے مستحق ہیں۔ دہشتگردی کے واقعہ کے 48گھنٹوں کے اند ر اندر خود کش حملہ آور کا پورا نیٹ ورک گرفتار کرنا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اگر لاہور میں سیف سٹی پروجیکٹ نہ لگایا ہوتاتو کبھی بھی یہ دہشتگرد گرفتار نہ ہوتے۔ حالانکہ خودکش دھماکہ پشاور اور سیہون میں بھی ہوا تھا۔ حکومت خیبر پختونخوااور سندھ میں بھی موجود ہے مگر وہاں چار دن تک پولیس دہشتگرد کو شناخت نہیں کرسکی،نیٹ ورک تک پہنچنا تو دور کی بات ہے۔ اگر ایکشن پنجاب میں نظر آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں کا وزیراعلیٰ و دیگر ادارے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں۔
لاہور خودکش دھماکے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے خود فیصلہ کیا کہ پورے ملک میں تاثر ابھررہا ہے کہ پنجاب میں رینجرز کے حوالے سے مسلم لیگ ن رکاوٹ ہے تو اس (narrative)کو ختم ہونا چاہئے۔ عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد سیاسی حکومت کے رینجرز کے حوالے سے چند سیاسی تحفظات بھی دور ہوگئے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ عسکری قیادت کی طرف سے نہیں کیا گیا۔ بلکہ جب مسلم لیگ ن کی قیادت نے طے کیا کہ پنجاب میں رینجرز سی ٹی ڈی اور پولیس کی معاونت کرے گی تو ایسا طریقہ کار تلاش کرنا مقصود تھا۔ جس میں شدت سے یہی تاثر دیا جاسکے کہ صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے طے ہوا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا اور اس اجلاس کے بعد حکومتی ترجمان میڈیا کو بتا دیں گے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے رینجرز کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ اب اہم بات یہ ہے کہ رینجرز کس قانون کے تحت صوبے میں آرہی ہے اور اس کے پاس کیا کیا اختیارات ہونگے؟
پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا معاملہ سندھ سے بالکل مختلف ہے۔ آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج کو طلب کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسی آئین پاکستان کے آرٹیکل 147کے تحت کوئی بھی صوبائی حکومت امن و عامہ سے متعلق اپنا اختیار وفاقی حکومت کے سپرد کردیتی ہے اور رینجرز چونکہ وفاقی ادارہ ہے تو وہ صوبے میں پھر پولیس کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ مگر پنجاب میں آرٹیکل 147کے تحت رینجرز کو نہیں بلایا جارہا۔ بلکہ رینجرز ایکٹ کےسیکشن 4,5اور7اور دہشتگردی ایکٹ کے تحت بلایا جارہا ہے۔ ویسے سیکشن 4 کے تحت تو صوبائی حکومت محرم الحرام اور دیگر حساس صورتحال میں رینجرز کو بلاتی رہتی ہے مگر اب سیکشن 5کا اضافہ کرکے گرفتاری اور چھاپوں کا بھی اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے بھی ایک جے او سی(جوائنٹ آپریشن کمیٹی ) بنے گی،جو پولیس اور سی ٹی ڈی کی معانت سے کارروائی کرے گی۔ لیکن آج ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ فیصلہ عوام کے بہتر مفاد میں ہوگا۔
سندھ میں پچھلے20سال سے رینجرز موجود ہے،مگر آج بھی رینجرز ہٹادیں تو صورتحال وہیں پر آجائے گی۔ پیرا ملٹری فورس کبھی بھی دائمی امن قائم نہیں کرسکتیں۔ کیا صورتحال ہوگی جب آپ پیرا ملٹری فورس کو سڑکوں پر گھمائیں گے تو مکمل تاثر ہی بدل جائے گا۔ لندن میں ہم سے زیادہ پولیس ہے مگر وہاں پر بغیر کسی وجہ کے پولیس جیسے ادارے کو بھی سڑکوں پر نہیں گھمایا جاتا کہ کہیں شہریوں میں خوف کی فضا نہ قائم ہوجائے۔ حالانکہ ان ممالک میں پولیس فورس نہیں بلکہ ایک سروس ہے۔ ہم بے شک تھرڈ ورلڈ کنٹری (تیسری دنیا کے ملک) ہیں مگر اپنے اچھے بھلے شہروں میں پیرا ملٹری فورس کو کوئی نہیں گھماتا۔ دنیا بھر میں یہ ادارے تو خود شہروں سے دور رہتے ہیں تاکہ شہریوں اور ان اداروں کا بھرم قائم رہ سکے۔ رینجرز کے قیام کا اصل مقصد سرحدی علاقوں کی حفاظت اور صورتحال قابو میں رکھنا ہے۔ اس لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے سی ٹی ڈی جیسے سویلین اداروں کو ضلعی سطح پر مضبوط کریں۔ لامحدود اختیارات اور وسائل دیں۔ اگر یہ ادارہ 10سال پہلے بنایا گیا ہوتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ جمہوری سیٹ اپ میں ہمیشہ سویلین اداروں کو ہی آگے ہونا چاہئے۔ مجھے تو اس ساری صورتحال پر (Camel & Arab)والی کہاوت یاد آرہی ہے۔ ۔ ۔ باقی جاتے جاتے شعر عرض ہے۔
قتل کرو یا دار پر کھینچو مجھ کو
میرا جرم یہ ہے کہ میں سچ بولتا ہوں


.
تازہ ترین