• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں دہشت گردی کے پہ در پے حملوں کے بعد سارے ملک پر اداسی و مایوسی کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ چیئرنگ کراس خود کش حملے کے بعد لاہور غم کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ گزشتہ ہفتے ڈیفنس لاہور میں ہونے والے دھماکے میں میرا ایک عزیز جو دراصل عزیز از جان تھا اچانک چل بسا تو مجھے معلوم ہوا کہ دکھ کیا ہوتا ہے۔ معظم پراچہ ڈیفنس لاہور کے زیڈ بلاک میں اپنے ریسٹورنٹ کی تعمیر و تکمیل کا جائزہ لینے اپنے عملے کے ساتھ آیا تو خوفناک دھماکے کی زد میں آگیا۔ اس سانحے میں معظم کے علاوہ اور سات افراد بھی شہید ہوگئے۔معظم شہر کا ممتاز بزنس مین تھااور نہایت محتاط مزاج کا مالک تھا۔ حکومت اس سانحے کو نہ جانے کیوں گیس سلنڈر کا دھماکہ قرار دینے پر مصر ہے جبکہ ریسٹورنٹ میں موجود 6بھرے ہوئے اور تین خالی سلنڈر اب بھی صحیح و سلامت موجود ہیں جنہیں اب ٹیلی وژن اسکرینوں پر بھی دکھایا جارہا ہے،اگر سلنڈروں سے دھماکہ ہوتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے یہ تبصرے تو ہوتے رہیں گے، مگر یوں اچانک رخصت ہونے والوں کے پیارے ہی اس اذیت کی شدت کو محسوس کرسکتے ہیں کہ
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے
اس وقت ہمیں اس اداسی و مایوسی کو ہر حال میں شکست دینا ہےتاہم اس لحاظ سے پاکستان سپر لیگ کے فائنل میچ کو لاہور میں منعقد کروانے کا فیصلہ بروقت بھی ہے اور مستحسن بھی۔ اب قوم کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جینے کے لئے زندہ دلی چاہئے، مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں۔ دوسرے دہشت گردوں کو یہ پیغام پہنچے گا کہ یہ قوم مر مر کے جینے کا فن جان چکی ہے۔ ایسی قوم کو شکست دینا ممکن نہیں ہوتا۔ عمران خان کی دلیل بھی بے وزن نہیں مگر جب قوم کو یاس کی دلدل سے نکالنا ضروری ہوجائے تو پھر ہرچہ بادا باد کہہ کر میدان عمل میں کود پڑنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوتا۔ سپر لیگ کے فائنل میچ کو لاہور میں کرانے کے فیصلے سے زندہ دلان لاہور ہی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک نیا جوش اور ولولہ دیکھنے میں آرہا ہے اور یہی جذبہ مطلوب و مقصود ہے۔ لاہور سپر لیگ سے پہلے اسلام آباد میں دس ممالک پر مشتمل ایکو سربراہ کانفرنس اسلام آباد میں شروع ہوچکی ہے۔ دس ممالک پر مشتمل اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں9سربراہان مملکت یا حکومت شریک ہیں،جبکہ پڑوسی بلکہ برادر ملک افغانستان کے صدر نہیں آئے۔ جب باہر سے مہمان آئے ہوں تو پڑوسیوں کو آپس کے گلے شکوے کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھنے چاہئیں۔
1979کے ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے وہاں آر سی ڈی کے نام سے ایران، ترکی اور پاکستان پر مشتمل علاقائی تعاون کی تنظیم کام کررہی تھی۔ 1985میں آر سی ڈی کی جگہ علاقائی اقتصادی تعاون کے لئے ایک وسیع تر تنظیم کا قیام عمل میں آیا سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پندرہ وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ پندرہ میں سے چھ ریاستیں ایسی تھیں جن میں اسلام کی شمع روشن تھی۔ ان میں تاجکستان، ترکمانستان، کرغزستان، ازبکستان، قازقستان اور آذربائیجان شامل ہیں۔ یہ تنظیم بنیادی طور پر اقتصادی، صنعتی، زرعی اور تعلیمی و سائنسی تعاون کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ گزشتہ برس بھارت کی پاکستان دشمنی کی بناء پر سارک کانفرنس اسلام آباد منعقد نہ ہوسکی تھی۔اب اقتصادی تعاون کی تنظیم سے وابستہ 9سربراہان کی آمد نہایت خوش آئند ہے۔ افغانستان کو اگر پاکستان سے شکایات ہیں تو اقتصادی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ان شکایات کے ازالے کے لئے ایک سنہری موقع تھا۔ 20برس کے بعد پاکستان میں منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس کا موضوع ’’علاقائی ترقی کے لئے رابطوں کا فروغ ہے‘‘ بلاشبہ رابطوں سے قربتیں بڑھتی اور فاصلے گھٹتے ہیں۔ آپس کی آمد و رفت سے اقتصادی ترقی و خوشحالی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ تنظیم کے وزرائے خارجہ نے وژن 2025کی بھی منظوری دی۔اس تنظیم میں شامل سب کے سب اسلامی ممالک ہیں۔ باہمی رابطوں او رراستوں کی تعمیر کے ارادے اور خوشحالی و اقتصادی ترقی کے منصوبے نہایت خوشگوار اور دل خوش کن ہیں۔ ایکو کے13ویں سربراہی اجلاس کےمیزبان میاں نواز شریف اس کانفرنس کی سائیڈ لائن پر سربراہان اور دوسری معزز شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔ سائیڈ لائن حکمت عملی سے پاکستان بہت بڑے اہداف حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو ایک بات اچھی طرح سمجھ لیتی چاہئے کہ یہ دونوں ملک ایمان و عقیدہ کے ایسے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں کہ جس کے بعد کسی اور بندھن کی ضرورت نہیں رہتی۔ نیز دونوں ملکوں میں قیام امن کے لئے باہمی تعاون ازبس ضروری ہے۔ پاکستان کو بھی ایک بات دل میں بٹھا لینی چاہئے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے ہر راستہ افغانستان سے گزر کر جاتا ہے اور افغانستان کو بھی اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ اس کی خوش بختی اور خوشحالی کا ہر راستہ پاکستان سےہوکر کابل پہنچتا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستان اس کانفرنس سے پہلے افغانستان کو دلنوازی اور سفارتکاری کے ذریعے سربراہی اجلاس کر لیتا اور باہمی گلے شکوے دور کر لیتا۔
بہرحال اب اقتصادی تنظیم کی سائیڈ لائن ملاقاتوں کے ذریعے افغانستان کو پیغام جانا چاہئے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد کرے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے بھارت کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی ہرگز ا جازت نہ دے۔ سائیڈ لائن پر پاکستانی وزیر اعظم کو ترک صدر کے ساتھ مل کر ایرانی صدر کو قائل کرنا چاہئے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات نارمل کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اس وقت عالم اسلام اپنی تاریخ کی بدترین اکھاڑ پچھاڑ، افراتفری اور قتل و غارتگری کا شکار ہے،اگر ترکی اور پاکستان مل کر دو برادر اسلامی ممالک کے اختلافات ختم کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اسی طرح اجلاس کی سائیڈ لائن پر وزیر اعظم نواز شریف کو مسئلہ کشمیر بھرپور انداز میں اجاگر کرنا چاہئے اور سربراہان سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بھارت پر زور دیں کہ وہ کشمیر میں قتل و غارتگری کو یکسر ختم کرے اور اس دیرینہ مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے حل کرے اور امن عالم کو شدید نوعیت کے ایٹمی خطرات سے دو چار نہ کرے۔ پاکستان کے لئے اس وقت اسلام آباد کا سربراہی اجلاس اور لاہور میں سپرلیگ کا فائنل میچ دونوں سنہری مواقع ہیں جن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیئے، زندہ دلی اور دانشمندانہ حکمت عملی سے بڑے بڑے بحرانوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

.
تازہ ترین