اسلام آباد(طاہر خلیل) کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی)ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملات کی تحقیقات کےلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کردی گئی۔ پورٹ قاسم میں دوسرے چینل کی تعمیر کاکام جلدشروع ہوگا تاہم اتھارٹی میں غیرقانونی بھرتیوں کا انکشاف ہوا ہے جبکہ107 ملازمین کو فارغ کردیاگیا ہے۔ سینٹ پورٹس اینڈ شپنگ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر نہال ہاشمی کی تجویز پر کراچی، پورٹ قاسم اور گوادر بندرگاہ اتھارٹیز کے معاملات کا تفصیلی جائزہ لینے کا فیصلہ کیاگیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے جہاز رانی و بندر گاہیں کااجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد علی خان سیف کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پورٹ قاسم اتھارٹی سے ایل این جی ٹرمینل و دیگرمعاملات، کراچی پورٹ اتھارٹی سے گہرے پانی کے منصوبہ، کے پی ٹی آفیسرز کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملات اور گوادر پورٹ اتھارٹی سے پری اور پوسٹ سی پیک منصوبہ جات اور زمین کے حصول کیلئے کی گئی ادائیگیوں کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔چیئرمین پوسٹ قاسم اتھارٹی نے قائمہ کمیٹی کو ایل این جی ٹرمینل و پورٹ قاسم اتھارٹی کے دیگر معاملات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پورٹ قاسم بندرگاہ کا چینل 45کلو میٹر پر مشتمل ہے پرائیویٹ سیکٹر اس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ہم رائیلٹی حاصل کرتے ہیں۔جہاز کو چینل کے اندر آنے کیلئے دو گھنٹے لگتے ہیں اس لئے دوسرے چینل کی تعمیر پر کام جلد شروع ہو گا۔2004میں سی این جی کی بہت زیادہ ضرورت تھی، گیس پوری نہیں ہو رہی تھی اس لئے ایل این جی ٹرمینل کا منصوبہ شروع کیا گیا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس حوالے سے میڈیا میں بہت سی خبریں آرہی ہیں بڑے جہاز یہاں آ نہیں سکتے جس پر چیئرمین قاسم اتھارٹی نے بتایا کہ میڈیا میں آدھی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سال میں 1200جہازوں کی اس بندرگاہ پر ٹریفکنگ ہوتی ہے اور اب تک ایل این جی 17کارگو جہاز یہا ں پر آ چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 4 نئی برانڈ کے ایل این جی ٹگ 25ملین یو ایس ڈالر کی مد میں دو سال لیز پر لئے ہیں تاکہ ایل این جی جہازوں کی بہتر اور محفوظ ہینڈلنگ کی جا سکے۔جس پر کسٹم حکام نے 15ملین ڈالر کی ڈیوٹی عائد کر دی ہے قائمہ کمیٹی سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں مدد کرے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ قطر سے گیس کے لئے معاہدہ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی باقی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اگر یہ کم کر دی جائے تو بہت سے جہاز یہاں لنگر انداز ہونگے۔جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ ٹگ کیلئے دو سال کا معاہدہ کرنے کی بجائے اپنے ہی ٹگ خرید لئے جاتے تو اچھا تھا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد علی خان سیف کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پاسنگ بے کی تعمیر کی فنڈنگ پیش کش دہندہ کرینگے۔ رکن کمیٹی میر کبیر احمد محمد شاہی کے سوال پر چیئرمین قاسم اتھارٹی نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت سے کوئی فنڈ نہیں لیتے جہازوں سے چارجز حاصل کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کی کل تعداد 2200کے قریب ہے۔ غیر قانونی بھرتیاں بھی کی گئی تھیں اور107ملازمین کوجن میں ڈائریکٹر سے سیکورٹی گارڈ تھے، فارغ کر دیا گیا۔