• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک طرف دشمن قوتیں ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کر کے اس کی شناخت دہشت گردوں کے گڑھ کے طور پر کرانے کیلئے اپنے ناپاک عزائم پر عمل پیرا ہیں تو دوسری طرف وطن عزیز کو ایک پر امن،ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانے کیلئے پر عزم پاکستانی قیادت ، عوام،مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بہادرسپوت ہیں جو آئے روز شہید لیفٹیننٹ خاور اور شہید نائیک شہزاد کے روپ میں اپنی جان نچھاور کر کے پاکستان کے ناقابل تسخیر دفاع پر اپنے پاکیزہ خون سے مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف علاقے،رنگ اور فرقے کی تفریق کے بغیر کاروائی کرتے ہوئے انہیں پوری ریاستی طاقت سے کچل دیا جائے گا تو سپہ سالار لبیک کی صدا لگاتے ہیں کہ ان کی جان اور لہو کا ایک ایک قطرہ پاکستان کیلئے ہے۔ یہی وہ قومی یکجہتی اور غیر متزلزل عزم ہے جو کبھی آپریشن راہ نجات، کبھی خیبر ون کبھی ضرب عضب اور اب آپریشن رد الفساد کی صورت میں پاکستان کے دشمنوں پر بجلی بن کر گررہا ہے۔ ترقیاتی منصوبے ہوں یا بتدریج مضبوط ہوتی ہوئی معیشت، سی پیک کی صورت میں غیر معمولی جغرافیائی حیثیت کا تعین ہو یا عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان کی اقتصادی میدان میں ترقی سے امن وامان کے شعبے تک بہتری کا اعتراف، وطن دشمنوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں بھارتی افواج کے اڑی میں واقع بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملے کے بعد مودی نے جس پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی دھمکی دی تھی اور چند حواری ممالک کے ساتھ مل کر نومبر میں اسلام آباد میں منعقدہ سارک سربراہ اجلاس کو سبو تاژ کرکے اپنی فتح کا بگل بجایا تھا اسی پاکستان نے صرف چار ماہ بعد اقتصادی تعاون تنظیم (ایکو) کے کامیاب انعقاد سے بھارتی نیتا کے منہ پر وہ طمانچہ مارا ہے جو تا دیر اسے خفت کا شکاررکھے گا۔ بھارت نے سفارت کے ساتھ کھیل کے میدان میں بھی پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی سازش کرتے ہوئے دہشت گردی کے الزامات کی آڑ میں پاکستان کے ساتھ سری لنکا کے مقام پر طے شدہ کرکٹ سیریز کھیلنے سے انکار کیا لیکن پاکستان نے غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ پاکستان سپر لیگ کا فائنل میچ لاہور میں منعقد کرا کے ایسی سیٹی بجائی کہ مودی سرکاری کی سٹی گم ہوگئی۔ بھارت نے سارک اجلاس کی طرح ایک بار پھر افغانستان کو ہمنوا بنانے کی کوشش کی جس کے باعث افغان صدر نے ایکو سمٹ میں خود شرکت کرنے کی بجائے پاکستان میں تعینات افغان سفیرکو بھیجنے پر اکتفا کیا تاہم ایران،ترکی،آزربائیجان،تاجکستان اور ترکمانستان کے صدور،قازقستان اور کرغستان کے وزرائے اعظم،ازبکستان کے نائب وزیر اعظم،چین اور اقوام متحدہ کے حکام نے بطور مبصرشرکت کر کے پاکستان کی سفارتی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔ اقتصادی تعاون تنظیم نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو پورے خطے کی ترقی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف بھرپورحمایت کااعلان کیا بلکہ رکن ممالک نے منصوبے کا حصہ بننے میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔ ایکو کے رکن ممالک نے آئندہ تین سے پانچ سال کے دوران باہمی تجارت کو دگنا کرنے پر اتفاق کیا جبکہ مواصلاتی روابط کو فروغ دینے، توانائی،سائبر ٹیکنالوجی،ویزا پالیسی،کسٹمز سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے، دہشت گردی،انتہا پسندی اور منشیات کی اسمگلنگ سمیت مختلف چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ویژن 2025ء کی بھی منظوری دی۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کا کامیاب انعقاد اور باہمی تعاون یقینا باعث اطمینان ہے لیکن کچھ حقائق تلخ بھی ہیں جو بھرپور توجہ کے متقاضی ہیں۔ جیسے وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا کی آبادی میں ایکو ممالک کاحصہ 16 فیصد ہے لیکن دنیا کی مجموعی تجارت میں اس کا حصہ صرف 2 فیصد ہے۔ ایران،ترکی اور پاکستان کی کوششوں سے 1985ءمیں قائم ہونے اور 1992 میں مزید سات وسط ایشیائی ریاستوں کی نمائندگی کرنے والی اقتصادی تعاون تنظیم گزشتہ 25 سال میں بھی اتنی مؤثر اورفعال نہیں ہو سکی کہ دنیا کی تجارت میں قابل ذکر شراکت داری کو یقینی بنا سکتی۔ دنیا تو ایک طرف تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان بھی باہمی تجارت کا حجم گنجائش سے انتہائی کم ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان جسے اقتصادی تعاون تنظیم میں کلیدی کردار سونپا گیا ہے اور جو سی پیک اور جغرافیائی پوزیشن کے سبب مستقبل میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کرنے جا رہا ہے اس کی شرح خواندگی افغانستان کے بعد ایکو کے تمام رکن ممالک میں سب سے کم ہے۔ایکو رکن ممالک میں افغانستان کی شرح خواندگی 34 فیصد، پاکستان کی تقریباً 58فیصد، آذر بائیجان کی تقریباً99فیصد،ایران کی 87فیصد، قازقستان کی تقریبا 100 فیصد،ترکمانستان کی 5۔99 فیصد،ازبکستان کی 3۔99فیصد ترکی کی 94فیصد، تاجکستان کی99 فیصد اور کرغزستان کی 99 فیصد ہے۔ دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے پاکستان ایکو ممالک میں سب سے آگے ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 988 ارب ڈالر ہے جو رکن ممالک میں بہتر ہے۔اگر پاکستان کی ایکورکن ممالک سے تجارت کی بات کی جائے تو پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تجارت محض 2 ارب ڈالرز کی ہے۔ آذر بائیجان کے ساتھ پاکستان کی تجارت کاحجم محض 4کروڑ 97لاکھ ڈالراور ایران کیساتھ صرف 26کروڑ 80لاکھ ڈالرہے۔ قازقستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت 3 کروڑ 43لاکھ ڈالر تک جبکہ ترکمانستان کیساتھ صرف ڈھائی کروڑ ڈالر تک محدود ہے۔ازبکستان اور پاکستان کے درمیان محض 2 کروڑ 58 لاکھ ڈالرکا لین دین ہوتا ہے جبکہ ترکی جیسے دیرینہ دوست کے ساتھ بھی دو طرفہ تجارت محض 59کروڑ 97لاکھ ڈالر تک سکڑی ہوئی ہے۔ تاجکستان اور پاکستان کے درمیان 5کروڑ 55 لاکھ ڈالر جبکہ کرغزستان کیساتھ صرف 15لاکھ ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔اقتصادی تعاون تنظیم کےسلام آباد میں منعقدہ اجلاس سے قبل گزشتہ پچیس سال میں بارہ نشستیں ہوئیں اور ہر نشست میں باہمی روابط کو بڑھانے سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے وعدے اور معاہدے کئے جاتے رہے لیکن ان پر عمل درآمد کا اندازہ بیان کردہ تجارتی تعلقات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم کو حقیقی معنوں میں موثر اور فعال بنانے کیلئے اعلان اسلام آباد پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جائیں۔ یورپی یونین کی طرز پر ویزوں کے اجراء کا کوئی یکساں میکانزم قائم کیا جائے اور تب تک ایک دوسرے ممالک کے شہریوں کیلئے امیگریشن قوانین کو نرم کر کے ویزوں کی فراہمی کو آسان بنایا جائَے۔ ایکو کے رکن ممالک کے درمیان دو طرفہ آزاد تجارت کے معاہدے قائم کئے جائیں۔ طلبا، تاجروں، میڈیا ارکان اور ثقافتی وفود کے تبادلے یقینی بنائے جائیں،سیاحت اور ثقافت کے فروغ کیلئے مشترکہ فوڈ فیسٹیول منعقد کئے جائیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مشترکہ تحقیقاتی گرانٹس کا اجرا کیا، رکن ممالک کے درمیان باہمی اختلافات اور تنازعات کو حل کیا جائے۔ اجلاس کے دوران ترکی اور ایران کے صدور کے درمیان سائیڈ لائن میں ہونے والی خصوصی ملاقات دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری کیلئے ایک اہم پیش رفت تھی۔ پاکستان اور افغانستان کو بھی ترکی اور ایران کے صدور کی طرح جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرناچاہئے بالخصوص افغانستان کو پاکستان کی طرف سے بار بار بڑھایا جانے والا دوستی کا ہاتھ جھٹکنا نہیں چاہئے۔ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کیلئے لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیوں کہ جب تک دو اسلامی ہمسایہ ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہوں گے تب تک اقتصادی تعاون تنظیم سے بھی اس کی استعداد کار کے مطابق فوائد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ پاکستان ایرانی قیادت کی طرح اگر افغان حکام کو بھی بھارتی اثر و رسوخ سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو نہ صرف مغربی سرحد پرامن قائم ہو گا بلکہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے میں بھی آسانی ہو گی۔ یوں پرامن اور ترقی کی طرف گامزن پاکستان میں اقتصادی تعاون تنظیم جیسے اجلاس اور پی ایس ایل فائنل جیسے میچ منعقد ہوتے رہیں گے جبکہ پاکستان کو تنہا کرنے کے خواب دیکھنے والے بھارت کو خود تنہائی کا خوف لاحق ہو گا۔

.
تازہ ترین