• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر انسان کا کوئی نہ کوئی آئیڈیل ضرور ہوتا ہے۔ جسے وہ اپنے لئے رول ماڈل تصّور کرکے اس کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے ’’ہیرو ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جن کے اعمال کے اتباع میں اُن کے پرستار اُن جیسا بننے یا ان کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ہیرو گزرے ہیں۔ جن کے کردار کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف رہی ہے۔ لیکن سب میں ایک بات مشترک یہ تھی کہ وہ اپنے اپنے مقلدین کے لئے اُن کے نجات دہندہ کے طور پر پسندیدہ شخصیت تھے۔ جس زمانے میں دنیا کے مختلف حِصّوں میں بسنے والے لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ زندگی گذارتے تھے اُس وقت کے ’’ہیرو‘‘ بھی مقامی نوعیت کے ہوتے تھے۔ اور ان کا دائرہ اثر ایک مخصوص علاقے میں ہوتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی گئی اور ذرائع ابلاغ نے انہیں ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ ان ’’ ہیروز‘‘ کا دائرہ اثر بھی وسیع ہوتا گیا۔ اور وہ ایک وقت میںکئی معاشروں میں نہ صرف پہچانے جانے لگے بلکہ ان کا اثر بھی مختلف معاشروں پر مختلف حوالوں سے وقوع پذیر ہونے لگا۔ اُن میں سے کچھ ایسے تھے جو بیک وقت سب کے ہیروز تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو کسی ایک قوم، ملک یا معاشرے کے لئے تو ہیرو کا درجہ رکھتے تھے لیکن دوسری اقوام کے لئے ’’ولن ‘‘ تھے۔ دورِ جہالت میں جب قوموں کی قدر و منزلت فتوحات کی محتاج تھی۔ تو اس وقت کے فوجی جرنیل یا جنگجو افراد جو اپنی اقوام کو جنگوں میں فتح دلاتے تھے وہ اس قوم کے ہیرو قرار پاتے تھے۔ جبکہ جن اقوام کو وہ جنگوں میں زیر کرتے تھے اُن کے نزدیک وہ ’’ولن ‘‘ تصّور کئے جاتے تھے۔ گویا ایک جنگ کے بعد دونوں قوموں میں نفرت کی ایک ایسی لہر پیدا ہو جاتی تھی جو آئندہ کئی جنگوں کا باعث بنتی تھی۔ اور انسانی پیداوار کا زیادہ حصّہ جنگی سازوسامان اور فوجوں کی تیاری میں صرف ہو جاتاتھا۔ اور حقیقی انسانی ترقی کا تصّور کہیں دفن ہوکر رہ جاتا تھا۔ جب تاریخ کے ایک موڑ پر خدا کے برگزیدہ بندوں نے جو پیغمبر کہلاتے تھے۔ انسانوں کو نفرتوں اور جنگوں کی ہلاکت خیزی سے نکالنے کے لئے امن و محبت کا درس دیا تو اُن کے اکثر پیروکار اُن ہیروز کو چھوڑ کر انسانی قتل و غارت گری کا باعث بنتے تھے۔ اُن پیغمبروں اور ان کے جانشین درویش صفت انسانوں کو اپنا ہیرو ماننے لگے جو تمام بنی نوع انسان کو ایک خدا کا کنبہ سمجھتے تھے اور ان سے پیار اور ہمدردی سے پیش آنے کی تلقین کرتے تھے۔ ان تمام ہستیوں نے نفرت اور بدلے کی بجائے محبت اور عفو درگزر کا سبق دیا اور اپنی عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ بھی کیا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو مت اور بدھ مت کے بانیوں یعنی رام چند ر جی اور مہاتما بدھ نے انسانی علاقے فتح کرنے اور انسانی خون بہانے کی بجائے حکمران طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے تخت و تاج سے محض اس لئے دستبردار ی اختیار کرلی کہ وہ دنیا کو ’’ پانے ‘‘ کی بجائے ’’دینے ‘‘ کا سبق سکھا سکیں۔ تاکہ انسان نفرت کی بجائے محبت سے زندگی گزار سکے۔ یہی طرزِ عمل حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبر ِ آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا تھا۔ جنہوں نے اپنی تعلیمات اور طرزِ عمل سے اپنے دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا یہ قول کہ اگر کوئی آپ کے داہنے گال پر تھپڑ مارے تو بدلہ لینے کی بجائے اس کے آگے اپنا بایاں گال کر دیں۔ اسکی واضح مثال ہے۔ اسی طرح ہمارے پیارے نبی ﷺ پرجو عورت گندگی پھینکا کرتی تھی۔ آپ ؐیہ جان کر اسکی خیریت دریافت کرنے تشریف لے گئے کہ وہ بیمار تھی۔ یہ وہ عظیم درخشاں روایات تھیں۔ جنہوں نے بنی نوع انسان کو اس کی حقیقی منزل یعنی امن و سلامتی کے نئے راستے دکھائے۔ لیکن افسوس کہ بعد میں انہی کے پیروکاروں نے نہ صرف اپنے مذاہب کے اندر بھی ایک دوسرے کے خلاف کئی فرقے بنا ڈالے بلکہ دوسرے مذاہب کے خلاف بھی نفرت آمیز رو یے اپنانے شروع کر دیئے اور مذہب کے نام پر ایک مرتبہ پھر انسانوں کو تقسیم کردیا۔ جن کے خلاف انہی مذاہب کے صوفیائے کرام، سنت اور ولیوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ کیونکہ جنگ و جدل اور نفرت ہر مذہب کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ صوفی سنت تمام انسانوں کے لئے باعثِ رحمت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت میاں میر صاحب نے سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کی دعوت پر ان کی سب سے بڑی عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھ کر دنیا کے تمام انسانوں کو محبت اور امن کی راہ دکھائی یوں وہ بیک وقت کئی مذاہب کے یکساں ہیرو قرار پائے۔ ایک وقت میں قوم پرستی اور وطن پرستی انسانی اوصاف میں ممتاز مقام کی حامل تھیں لیکن جب ہٹلراور مسولینی کی تنگ نظر قوم پرستی نے دنیا کو دوسری جنگِ عظیم کی تباہی سے دوچار کردیا۔ تو مہذب انسانوں نے قوم پرستی اور وطن پرستی کو بھی انسان دوستی سے مشروط کردیا۔تاکہ آئندہ بنی نو ع انسان کسی بڑی تباہی سے بچ جائے جو ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں اس کرہ ِ ارضی کو صفحہ ء ہستی سے مٹا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آج کی دنیا جو ماڈرن ذرائع ابلاغ اور نقل و حمل کی وجہ سے ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اسکی بقا کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے تمام انسان بلاتمیز رنگ و نسل اور مذہب و ملّت ایسے افراد کو اپنا ہیرو بنائیں جو ان کے لئے آسائشیں اور آسانیاں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ آج ہمیں اُن دانشوروں، صوفیوں، سائنسدانوں اور موجدوں کو ہیرو بنانے کی ضرورت ہے جنہوں نے تمام انسانوں کو آلام و مصائب اور بیماریوں سے بچانے کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا ہے۔ ایسے افراد جن کی ایجادات نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ ایسے افرادکسی بھی قوم یا فرد کے ولن نہیں۔ صرف اور صرف ہیرو ہیں۔جن کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے نزدیک آسکتے ہیں۔اور اس کرہِ ارضی کو امن و سکون کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔

.
تازہ ترین