• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرپشن قیام پاکستان سے لے کر آج تک قومی سیاست کا حصہ رہی ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والا ہر حکمران اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہان بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر کرپشن جیسے الزامات کی زد میں رہے ہیں لیکن شاید ہی کوئی حکمران اور سیاستدان ہوگا جسے کرپشن کے الزامات ثابت ہونے پر نا اہلی سمیت دیگر سزائیں دی جا سکی ہوں۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں کرپشن کا ناسور موجود ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی کرپشن ہوتی ہے جہاں کارپوریٹ سیکٹر وسیع پیمانے پر بین الاقوامی سطح کے ٹھیکے اور ٹینڈرکیلئے کمیشن دیتا ہے تا کہ اسے من پسند ٹھیکے مل سکیں۔ فرانس کے حکمران اور نجی ادارے فوجی سازوسامان کی خریدو فروخت پر کرپشن میں ملوث پائے گئے ۔ میرے ایک ذاتی دوست جو امریکہ میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا گاڑیوں کا شو روم ہے انہوں نے ایک ورکشاپ بھی بنا رکھی ہے میرے دوست نے اس ورکشاپ کا لائسنس حاصل کرنے کے لئے متعلقہ ادارے کو 10 ہزار ڈالر بطور رشوت دے کر لائسنس حاصل کیا۔ اسی طرح کچھ سال قبل جب میںناروے میں تھا تو وہاں بھی کرپشن کے موضوع پر بحث چل نکلی نارووے میں موجود میرے دوست نے بتایا کہ یہاں کے گورے ہر طرح کے ٹھیکوں میں کرپشن کرتے ہیںاور رشوت بھی لیتے ہیں مگر ان ممالک کی کرپشن اس لیے نظر نہیں آتی کہ وہاں پر آبادی اور اخراجات کی نسبت وسائل زیادہ ہیں ۔ اسی طرح ہمارے ہمسایہ ممالک جن میں انڈیا ، چین ، افغانستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں ان میں بھی کرپشن عام سی بات ہے۔ پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات صرف سیاستدانوں پر ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں پر بھی عائد کیے جاتے ہیں ۔ حالیہ سروے کے مطابق پولیس ، ریونیو ڈیپارٹمنٹ ، صحت سمیت ہر ادارے میں کرپشن کی جاتی ہے ۔ گزشتہ 10 ماہ کے دوران پاکستان میں پانامہ لیکس ایشو پر سیاست ہو رہی ہے پانامہ لیکس میں الزام ہے کہ شریف خاندان نے کرپشن کے ذریعہ پیسہ بنایا اور منی لانڈرنگ کرتے ہوئے اس پیسہ کو ملک سے باہر بھجوایا ۔برطانیہ کے شہر لندن میں قیمتی جائیدادیں خریدیں۔ پانامہ پیپرز کی روشنی میں یہ کیس ملک کی اعلیٰ عدالت میں زیر سماعت تھا اور اس کیس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے ۔اس سے قبل بھی حکمران جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی پر مختلف ادوار میں کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں ۔ شریف فیملی پر کئی سال تک کرپشن کے کیس بھی چلتے رہے نیب نے بھی شریف فیملی کے خلاف کرپشن ثابت کرنے کیلئے دن رات ایک کردیئے مگر اسے کامیابی نہ حاصل ہو سکی۔ شریف فیملی کو جلا وطن کئے جانے کے بعد بھی ان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات نیب میں جاری رہیں ، شریف فیملی کے ایک فرد اور موجودہ ممبر قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف جن کو بطور ضمانت مشرف حکومت نے پاکستان میں رکھا ان کو کئی ماہ تک روزانہ نیب کے دفتر بلایا جاتا اور کئی کئی گھنٹوں تک وہاں بٹھا کرواپس بھیج دیا جاتا آخر کار اس وقت کے نیب کے سربراہ نے ایک دن حمزہ شہباز شریف کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ ہم آپ کے خلاف نہ کچھ تلاش کر سکے اور نہ ہی کچھ ثابت ہوسکا۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوبار برطرف کی جانے والی حکومتوں پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے کرپشن کے کیسز کا سامنا کرتی رہیں جبکہ ان کے شوہر اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کرپشن کے الزامات کے سلسلہ میں جیل کی صعو بتوں کو برداشت کیا۔ انہیں تقریباً سات سال کے بعد پرویز مشرف کے ساتھ بے نظیر بھٹو کا معاہدہ (این آر او) طے پاجانے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا اور محترمہ کی وطن واپسی بھی عمل میں آئی ۔
بھٹو فیملی اور شریف خاندان پر اب بھی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں مگر ان کے خلاف کبھی کچھ ثابت نہ کیا جاسکا۔ پاکستان میں ابھرتی ہوئی تیسری سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنمائوں پر بھی اسی نوعیت کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف سابق رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے جس میں عمران خان پر اثاثے چھپانے اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات لگائے گئے ہیں اسی طرح کا ایک کیس تحریک انصاف کے سابق رہنما اکبر ایس بابر نے بھی الیکشن کمیشن میں دائر کر رکھا ہے اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان نے پارٹی چلانے اور الیکشن لڑنے کے لئے غیر ملکیوں سے فنڈز حاصل کیے ہیں جن میں انڈین اور یہودی شامل ہیں جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے بھیجے گئے پارٹی فنڈز میں بھی کروڑوں روپے کی خورد برد کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ پر لگائے جانے والے کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات میں حقیقت تلاش کرنا مشکل ہوگا کیونکہ میری ذاتی رائے میں انہوں نے اس حد تک کرپشن نہیں کی ہوگی اگر اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے بھیجے جانے والے فنڈز میں خورد برد کی گئی ہو گی تو اس میں پارٹی کے دیگر افراد ملوث ہو سکتے ہیں ۔بنی گالہ میں واقع عمران خان کی جائیداد کے حوالہ سے جس قسم کے بیانات آ رہے ہیں اس میں تضاد پایا جاتا ہے اگر کبھی کپتان کو کوئی مسئلہ پیش آیا تو اس جائیداد کی وجہ سے آ سکتا ہے ۔ یہاں ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس سب کے پیچھے کوئی سازش تو نہیں کر رہا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت میں شریف خاندان کے بعد عمران خان کا میڈیا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بعض ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کو ان دونوں سیاسی قوتوں سے خطرات لاحق ہیں۔پاکستان کے تمام اداروں میں کرپشن ہوتی رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ آئندہ وقتوں میں بھی ہوتی رہے ۔یہاں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ موجودہ دور حکومت میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کے کسی وزیر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا اور نہ ہی بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میںکمیشن لینے اور کرپشن کرنے کی کوئی بات سامنے آئی ہے ۔اس کے برعکس سابق حکمران پارٹی کے اہم افراد اور ان کے دونوں وزاء اعظم سمیت متعدد وفاقی وزیروں پر کرپشن کے کیس تاحال چل رہے ہیں جبکہ ان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کوحج کرپشن کیس میں سزا بھی ہو چکی ہے۔پاکستان میں ایک ایسے نیب ادارہ کی ضرورت ہے جس پر پوری قومی قیادت اتفاق کرے اور یہ ادارہ بلا امتیاز تمام حکمرانوں ،سیاستدانوں، سول بیورو کریسی سمیت ہر ادارے کا شفاف احتساب کر سکے اور اس کو تمام ریاستی اداروں کی طرف سے بھی مکمل حمایت حاصل ہو ۔ایک مرتبہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا ضروری ہے تاکہ جن لوگوں نے قومی دولت لوٹی ہے ان کو عبرتناک سزا مل سکے۔

.
تازہ ترین