• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر اعزاز چوہدری واشنگٹن اور نیویارک میں شدید برفانی طوفان کی پیشگوئی اور احتیاطی تدابیر کے عملی انتظامات کے دوران خراب موسم شروع ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل واشنگٹن پہنچ گئے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ پاک امریکہ تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی ذمہ داری پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے گو کہ سفیر اعزاز چوہدری ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں جو اقوام متحدہ، یورپ اور دیگر ممالک میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد بطور خارجہ سیکرٹری پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ نوعیت سے بھی واقف ہیں لیکن صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا میں ترجیحات اور علاقائی پالیسی، امریکہ۔ چین تعلقات کی نوعیت، ری پبلکن کانگریس، چین مخالف سیاسی حلقے، بھارت۔ افغان الائنس اور سی آئی اے کے ہاتھوں ڈرونز کے استعمال کے نئے اختیارات سمیت مختلف سفارتی اونچ نیچ اور امریکی مطالبات کی شدتوں کے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ صدر ٹرمپ کے چار سالہ دور میں پاکستان کیلئے پاک۔ امریکہ تعلقات کا موسم پاکستان کیلئے خاصا ناموافق نظر آتا ہے۔ ہمارا ماضی کا ریکارڈ بھی یہی ہے کہ ہم سفارتی تعلقات کے موسموں کی اونچ نیچ اور شدت سے بے نیاز آخری لمحات میں احتیاطی تدابیر یا صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے کے عادی ہیں۔ صدر ٹرمپ ابھی سیاسی طور پر تقسیم شدہ امریکہ کے داخلی مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کے اپنے جاری کردہ ’’ٹویٹرز‘‘ پیغامات ہی ان کیلئے مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ صدر اوباما پر صدر ٹرمپ کا نیا ٹوئٹر الزام ٹرمپ کی ساکھ کو خاصا متاثر کررہا ہے کہ صدر اوباما نے دوران انتخابی مہم ڈونلڈ ٹرمپ کے فون اور رابطوں کی نگرانی بھی کی تھی۔ کوئی ثبوت نہ ہونے کے باعث صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی تک ری پبلکن ٹرمپ انتظامیہ اپنی حکومتی مشینری اور حکومتی پالیسیوں کی ابتدائی تشکیل کے مرحلہ میں ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرس عہدہ سنبھالنے کے بعد اب ٹوکیو، سیول اور بیجنگ کے ایشیائی دارالحکومتوں کے چار روزہ دورے پر جارہے ہیں۔ بحرچیں میں چین۔ امریکہ کشیدگی کا ماحول بھی ہے تو کرنسی، تجارت، توازن ادائیگی کے علاوہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت امریکہ کیلئے تشویش اور توجہ کا باعث ہے۔ یہ بالکل واضح نظر آرہا ہے کہ چین کے بارے میں صدر ٹرمپ جو حکمت عملی طے کریں گے اس کا براہ راست اثر پاکستان پر بھی پڑیگا۔ کیونکہ اہل امریکہ کی نظر پاکستان۔ چین اور روس کے تعلقات کی نئی ’’تثلیث‘‘ پر ہے۔ مشہور امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے دانشور اسی ہفتے واشنگٹن میں پاکستان چین۔ روس تعلقات پر مذاکرہ منعقد کرکے اپنی رپورٹ مرتب کریں گے۔ اسی طرح امریکی محکمہ خارجہ کے ماہرین ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات، سی آئی اے اور پینٹاگان کے بڑھتے ہوئے رول کو بھی پیش نظر رکھ کر پاکستان سمیت مختلف ممالک بارے امریکی پالیسی کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ اس سال 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر چین کے فوجی دستوں اور ترکی بینڈ کی شرکت کی اطلاعات بظاہر رسمی خیرسگالی کا مظہر سہی لیکن خطے میں بدلتے رجحانات و تعلقات کی ترجمانی ہے۔ ایک دور تھا جب ماسکو اور کمیونزم کےخلاف پاکستان امریکہ کا مضبوط ترین اتحادی، بڈھ بیر کےخفیہ بیس، سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے، خفیہ آپریشنز، صدر ریگن کے دور میں افغان جہاد سمیت پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں ماسکو کو ایک دشمن کی حیثیت حاصل تھی۔ اب ماسکو ہمارا دوست دارالحکومت شمار ہونے لگا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں تعلقات کی ترجیحات میں اس پاکستانی تبدیلی کے ردعمل میں امریکی پالیسی کیا سمت اختیار کرتی ہے؟
صدر اوباما کے دور میں بھی امریکہ کی ڈرونز حکمت عملی پاک۔ امریکہ تعلقات کیلئے پیچیدہ معاملہ رہا ہے۔ لیکن یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ مشرف حکومت اور زرداری حکومت کے ادوار میں خود پاکستانی قیادت ڈرونز حملوں کے معاملے میں اپنے عوام سے غلط بیانی سے کام لیتی رہی ہے۔ ڈرونز حملے مشرف حکومت کے علم اور منظوری سے پاکستانی سرزمین پر ہوتے تھے لیکن اسلام آباد کی جانب سے ان حملوں کی مذمت اور اس پر احتجاج ایک عوامی رسم پوری کرنے تک محدود تھا۔ صدر زرداری کے پہلے دورہ اقوام متحدہ کے دوران اس وقت سی آئی اے کے سربراہ جنرل مائیکل ہیڈن سے صدر زرداری کی نیویارک میں خفیہ ملاقات جاری تھی کہ اسی لمحے اس ملاقات کی خبر ’’جیو‘‘ پر بریک کرنے کا اعزاز مجھے ملا اور پھر سات سال بعد ایک اجتماع میں اچانک ملاقات میں جنرل ہیڈن نے نہ صرف ملاقات کی تصدیق کی بلکہ کچھ اس ملاقات پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔ اس ملاقات میں بھی امریکیوں نے اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ جب پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف ڈرونز حملے معلومات کے تبادلے کے بعد کئے جاتے ہیں تو پھر احتجاج کیسا؟ اب ایک بار پھر صدر ٹرمپ نے پینٹاگان کے علاوہ سی آئی اے کو بھی اتھارٹی دی ہے کہ وہ مشتبہ دہشت گردوں کو ڈرونز حملوں سے نشانہ بناسکتی ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجی دستوں اور مشیران کی موجودگی، امریکی مفادات اور دہشت گردی کی موجودگی کے باعث سی آئی اے کو مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرونز کے استعمال کا اختیار پاکستان کیلئے بھی ایک اضافی چیلنج ہوسکتا ہے۔ ڈرونز کے تجربات اور استعمال کا زور پاک۔ افغان علاقوں میں ہی رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ، عراق، شام وغیرہ کے تصادم اور جنگوں میں تو ایڈوانس طرز کے ڈرونز استعمال کئے گئے۔ اب تو ماضی کے مقابلے میں ڈرونز نہ صرف بہت جدید اور ایڈوانس ہیں بلکہ امریکہ میں تو عام شہری بھی خرید سکتے ہیں۔ بھارت بھی مقبوضہ کشمیر کی کنٹرول لائن کے پار امریکی ساخت کے ڈرونز استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنا رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں تین ممالک کی سرحدوں کے آرپار امریکی ڈرونز کا یہ ’’کنفیوژن‘‘ علاقے میں امن کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ پنٹاگان کی فوجی حکمت عملی کی ضرورت کے مقابلے میں سی آئی اے کے ڈرونز استعمال کرنے کی ضروریات اور وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔ دو ایٹمی ممالک اور تین ہمسایہ ممالک کی سرحدوں کے آرپار کشیدگی کے اس ماحول میں ڈرونز کے استعمال کے اس نئے اضافی اختیار سے صورتحال کشیدہ اور پیچیدہ ہوسکتی ہے۔
واشنگٹن میں نئے پاکستانی سفیر اور وہائٹ ہائوس میں نئے ری پبلکن صدر کی آمد کے بعد پاک۔ امریکہ تعلقات کو جو چیلنج درپیش ہیں ان کے بارے میں یہ کہہ دینا درست نہ ہوگا کہ تعلقات بڑے اچھے گہرے اور اتحادی ممالک کے تعلقات ہیں بلکہ یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ دونوں طرف سے زمینی حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے مشترکہ مفادات و نکات پر کام کیا جائے۔ پاکستان کو یہ بات ذہن نشین کرلینا بہتر ہوگا کہ ٹرمپ دور میں امریکہ کیلئے بھارت ایک طے شدہ ترجیح ہے اور پاک۔ امریکہ تعلقات میں چین۔ امریکہ تعلقات کی نوعیت کو بھی ایک اہم فیکٹر کی حیثیت یوں حاصل رہے گی کہ اب پاکستان کو چین کا اتحادی سمجھا جا رہا ہے۔



.
تازہ ترین