• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے گزشتہ ایک کالم (جو کہ کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا) کی اشاعت کے بعد جنگ کے بہت سے قارئین کے ٹیلیفون موصول ہوئے جس میں انہوں نے اس معلوماتی کالم کی مبارکباد کے علاوہ اس موضوع پر مزید جاننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان افراد کی گفتگو سے جہاں تک میں نے اندازہ لگایا ہے وہ اس دریافت اور نوع انسانی کی کامیابی کے بارے میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انسانی کلوننگ کی جانب سائنس کا سفر کس تیز رفتاری سے جاری ہے، سو اس باب میں اپنے حساب سے عرض کرتا ہوں۔ میرا یہ کالم آپ گزشتہ سے پیوستہ سمجھ لیجئے۔ فروری 1997ء میں بھیڑڈولی کی کلوننگ سے حوصلہ پا کر کئی سائنس دانوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کلوننگ کے ذریعے نیا انسان تخلیق کر سکتے ہیں۔ سائنس دانوں کے اس اعلان سے مذہبی اور سیاسی حلقوں میں بڑی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا جس میں یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے تقریباً ہر ملک نے انسانی کلوننگ پر قانونی امتناع کا اعلان کر دیا تھا لیکن بعد کی تفاصیل سے یہ انکشاف ہوا کہ مکمل امتناع کسی بھی ملک میں عائد نہیں کیا جا سکتا۔ مجوزہ قوانین میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ لیبارٹریوں کی سطح پر انسانی کلوننگ کے تجربات جاری رہیں، البتہ ان تجربات سے تیار شدہ مواد کو کسی خاتون کے جسم میں منتقل نہ کیا جائے۔ اس گنجائش کی حد تک کئی تجربات کئے گئے ہیں اور ان کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی کلوننگ کی جانب انسان کا سفر تیز رفتاری سے جاری ہے۔ سردست سائنسدان تجربات کے بارے میں عالم انسانیت کو یہ بشارت دیتے ہیں کہ جینیٹک تکنیک سے یہ ممکن ہو جائے گا کہ انسانی اعضاء کی پیوندکاری کیلئے کسی انسان سے اس کے اعضاء کا عطیہ لینے کی محتاجی ختم ہو جائے گی اور درکار اعضاء کو مصنوعی طور پر تیار کر لیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ بعض اخباری نامہ نگاروں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ جینی حیاتیات کی تحقیقات کو کیمیائی اسلحہ سازی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ خدشات اپنی جگہ پر درست ہو سکتے ہیں کہ کسی بھی نئی ایجاد یا دریافت میں منفی پہلو بھی پائے جاتے ہیں مگر کلوننگ سائنسدان یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ کلوننگ تجربات انسان کی محرومیوں کا واحد علاج ہیں مثلاً کسی مرحوم عزیز کو دوبارہ زندہ پا لینا۔ طبّی تحقیق، نسل انسانی کے بہتر ڈیزائن، جسم انسانی کے ناکارہ حصّوں یا فالتو پرزوں کی تیاری وغیرہ۔ چنانچہ اس تحریک کے قائد سائنسدان ڈاکٹر ہربرٹ کہتے ہیں کہ کلوننگ کا خوف بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، اگر اس تکنیک کو نظم و ضبط کے ساتھ بروئے کار لایا جائے تو اس سے انسانوں اور جانوروں دونوں کا بھلا ہو گا۔ انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی کوئی امید افزا امکان سامنے آیا تو کسی نہ کسی شخص نے اس تجربہ کو آگے بڑھانے کی کوشش ضرور کی۔ سائنس کی تاریخ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر واٹسن نے ڈی این اے کی ترکیب کا راز بتایا۔ ڈاکٹر واٹسن کلوننگ تجربات کے حامی ہیں اور اس میدان میں ’’جینی منصوبہ‘‘ جیسے اہم سائنسی تجربات کے روح رواں ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ چند سال قبل بھارتی نژاد نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کھرانا نے مصنوعی جین کی تیاری کا ایک اہم تجربہ کیا تھا، بعد میں بھی کافی عرصہ تک انسانی کلوننگ کے ناکام و کامیاب تجربات ہوتے رہے، یہاں تک کہ ڈولی بھیڑ کی کلوننگ نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا۔ ڈولی کے بعد کے تجربات میں سب سے پہلے مساچیوسیل ریسرچ کا نام اخبارات کی زینت بنا جہاں مئی 1998میں ہوبہو مشابہ بچھڑے تیار کئے گئے تھے۔ جون 1998میں ایک چوہے کی تیاری کی خبر آئی اور اس کے پانچ ماہ بعد نومبر 1998میں یہ چونکا دینے والی خبر آئی کہ جاپان میں گائے کے دودھ کے خلیوں سے گائے کا کلوننگ تیار کر لیا گیا۔ اسی دوران ایک امریکی ماہر طبیعات نے اعلان کیا کہ وہ دو برس میں انسانی خلیہ تیار کر دیں گے۔ جب اس کے اس اعلان پر قانون امتناع عائد کرنے اور تجربہ گاہوں کو انسانی جین فراہم نہ ہونے دینے کی کوششیں کی گئیں تو اطالوی سائنسدان نے اعلان کیا کہ وہ خود اپنی کلوننگ تیار کر لیں گے۔ کلوننگ تکنیک کے میدان میں اس وقت نمائندہ تحقیقی کام امریکی، برطانوی اور اطالوی سائنس دانوں نے سرانجام دیا ہے۔ ان سائنس دانوں نے پہلی مرتبہ انسانی بیضہ (انڈا) سے ازلی انسانی خلیے نکال کر ان کی پرداخت کی ہے، چونکہ یہ خلیے ضائع شدہ حمل سے حاصل کئے جا سکتے ہیں لہٰذا یہ سائنسدان کہتے ہیں کہ اب ہماری راہ میں کوئی اخلاقی بندش بھی حائل نہیں ہے کیونکہ ضائع شدہ حمل تو بے جان ہوتا ہے۔ بہرحال اس موضوع پر بحث جاری ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس تکنیک کے بہت سے فوائد ہیں مثلاً اس کی مدد سے جسم میں ایسے جین سرایت کرائے جا سکتے ہیں جو کئی موروثی بیماریوں کے ازالہ میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ انسانی اعضا کی کلوننگ میں بھی یہ تکنیک استعمال کی جا سکتی ہے۔ جگر، تلّی یا ہڈیوں کا گودا لیبارٹری میں تیار کیا جا سکتا ہے اور معمولی نشوونما کے بعد اس کی پیوندکاری مریض کے جسم میں کی جا سکتی ہے جہاں وہ مریض کے خون پر پل کر مکمل حجم کو پہنچ جائے گا۔ اس طرح انسانی اعضا کی خریدوفروخت و بازیابی کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے گا۔ ابھی حال ہی میں ہالینڈ کے ایک جریدے نے لکھا ہے کہ ذیابیطس، امراض قلب، پارکنسس، اعصابی کمزوری، نسوں کی سختی، بلڈ ٹرانسفر، ہیپاٹائٹس اور کسی بھی قسم کے کینسر جیسے امراض کا تسلّی بخش علاج جینیاتی کلوننگ ہی ہے جس کے ذریعے تلف شدہ خلیوں کی تبدیلی، مرمّت یا ان کی صحیح دیکھ بھال کی جا سکتی ہے اور ڈاکٹر کولنز کے بہ قول میں نہایت عجزوانکساری کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہم تخلیق انسانی کی وہ کتاب پڑھنے کے قابل ہو گئے ہیں جس کا علم قبل ازیں نہیں تھا۔
پابند مقدّر ہو کر بھی ہر چیز پہ قادر ہے انساں
مجبور کا جب یہ عالم ہے مختار کا عالم کیا ہو گا



.
تازہ ترین