جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان کی حقیقی خودمختار ی کے لیے بیرونی مداخلت روکنا ہوگی۔ اگر پاکستان کی تمام قیادت فوجی عدالت پر متفق ہے تو ہماری بھی اولین ترجیح امن و امان ہے۔ بعض اوقات ناپسندیدہ چیزوں کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔
ملتان کے جامعہ قاسم العلوم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری جماعت پہلے روز سے ملک میں امریکی مداخلت کے خلاف ہے لیکن ملک اب اس دلدل میں پھنس چکا ہے ، نکلنے کا راستہ نہیں ۔ ملک کو خود مختار بنانے کے لئے بیرونی مداخلت کو روکنا ہو گا ۔ حسین حقانی نے جو بیان دیا ، اس پر کتابیں بھی چھپ چکیں اور اداریے بھی چھپے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن رد الفساد ، ضرب عضب کا نیا نام ہے ۔ آپریشن ضرب عضب کا امیج بنا اور پھر اچانک دہشت گردی نے امیج خراب کیا ۔ اب ہمارے ریاستی ادارے نئے نام سے نبرد آزما ہیں ۔
انہوں نے فوجی عدالتوں سے متعلق سوال پر جواب میں کہا کہ پاکستان داخلی دہشت گردوں سے بھی نمٹ رہا ہے ۔ بھارت اور افغانستان کی سرحدوں سے ہمیں خطرات ہیں ۔ پڑوسیوں کے ساتھ معاملات اور نرم حالات ہمارے مفاد میں ہیں ۔ پڑوسی ممالک کا استحکام ضروری ہے ۔ یہ معاملات اکھٹے بیٹھ کر طے کئے جائیں ۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا ہمارا نیشنل ایکشن پلان کامیاب ہو گیا ہے یا اسے مزید وسعت دینی چاہیے ۔ پاکستان کی تمام قیادت فوجی عدالت پر متفق ہے تو ہم بھی اس ناپسندیدہ چیز کو قبول کرتے ہیں ۔
پانامہ کیس پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسے عدالت پر چھوڑ دیں ہم عدالتی فیصلوں کا میڈیا ٹرائل کر رہے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ناموس رسالت کا قانون تبدیل ہونے نہیں دیا جائے گا ۔ سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے حوالے سے طوفان بدتمیزی ہے اس پر حکومت ہمارے تحفظات دور کرے ۔