• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں اقتدار کیلئے رسہ کشی، سیاسی جوڑ توڑ، سازشوں اور اتھل پتھل کا بدترین دور 1950کی دہائی کا وہ عرصہ تھا جب یہ نوزائیدہ مملکت ابھی سرزمین بے آئین تھی۔ حکومت انگریزوں کے بنائے ہوئے ایکٹ کے تحت چل رہی تھی جس کی باریکیوں اور مصلحتوں کا زیادہ تر علم بھی انگریزوں کی تربیت یافتہ دیسی بیورو کریسی کے پاس تھا۔ سیاستدان ان سے یا تو پوری طرح آگاہ نہیں تھے یا انہیں اتنا الجھا دیا جاتا تھا کہ وہ کمزور پڑ جاتے۔ فائل ورک میں طاق چند شاطر بیوروکریٹس اس کا فائدہ اٹھا کر طاقتور ہوتے چلے گئے اور سیاستدانوں کو آپس میں لڑا کر انتظامی کے ساتھ سیاسی اختیارات کے مالک بھی بن بیٹھے، اس کے نتیجے میں آئے روز حکومتیں تبدیل ہونے لگیں، ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہو گیا اور افسر شاہی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے لگی، پہلے ملک غلام محمد گورنر جنرل بنے، پھر سکندر مرزا کی باری آئی۔1956میں ملک کا پہلا آئین بنا تو سیاستدانوں نے انہیں صدر بھی منتخب کر لیا، یہ آئین وزیراعظم چوہدری محمد علی نے پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا جو غلام محمد اور سکندر مرزا کی طرح بیورو کریٹ ہی تھے۔ بڑے بڑے سیاستدانوں اور تحریک آزادی کے نامور رہنمائوں کی موجودگی میں بیورو کریسی کا سیاسی قوت حاصل کرنا تعجب انگیز تھا، اس دور میں اتنی حکومتیں بدلیں، اتنے وزرائے اعظم اور وزیر بدلے کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے پھبتی کسی ’’پاکستان میں دس سال کے دوران اتنی حکومتیں بدلی ہیں جتنی میں نے دھوتیاں نہیں بدلیں‘‘۔ یہ کھیل اس وقت رکا جب کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو خیال آیا کہ طاقت کا اصل مرکز تو میں ہوں، پھر یہ بابو لوگ کیوں سر پر چڑھے جارہے ہیں؟ چنانچہ انہوں نے صدر سکندر مرزا اور وزیراعظم ملک فیروز خان نون کو چلتا کیا اور مارشل لا لگا کر اقتدار پر خود قبضہ کرلیا۔ سیاسی بدنظمی کے اس دور میں انتخابات بھی ہوئے۔ دھاندلیاں بھی ہوئیں، لڑائی جھگڑے بھی ہوئے۔ سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچیں لیکن کسی نے کسی کی ایسی کردار کشی کی، نہ بدکلامی اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کیں جیسی آج کے مہذب اور مستحکم جمہوری دور میں سننے کو مل رہی ہیں، وہ کوئی مثالی سیاسی ماحول نہیں تھا۔ سیاستدان اقتدار کیلئے ہر طرح کے حربے آزما رہے تھے لیکن ان کی زبانیں اتنی زہر آلود نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ اس دور کے لیڈر ایک دوسرے کی ذات کو نہیں،پالیسیوں اور اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ انہیں غنڈے، مشٹنڈے، بدمعاش، پھٹیچر، ریلوکٹے، پاگل، ذہنی مریض، ٹریکٹر ٹرالی، ماسی مصیبتے، چالاکو ماسی قرار دیتے نہ ان کی ذاتی اور گھریلو زندگی پر کیچڑاچھالتے۔قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ناظم ملت خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے، بدقسمتی سے ان کے مختصر دور حکومت میں ملک قحط کا شکار ہو گیا۔ مخالفین میں سے کسی نے طنزاً انہیں قائد ملت کی رعایت سے ’’قائد قلت‘‘ کہہ دیا جو اخبارات میں بھی چھپ گیا۔سنجیدہ فکرسیاسی لیڈروں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی اس کا بہت برامنایا گیااور اس شریف النفس رہنما کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھر پور دفاع کیا گیا۔ آج جب بعض سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے اور انہیں عجیب و غریب، گھٹیا اور اخلاق سے عاری خطابات سے نوازتے ہوئے دیکھتے اور سنتے ہیں تو ہمیں وہ غیر ترقی یافتہ دور یاد آجاتا ہے جب قومی رہنما اپنے قول و فعل میں اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ ان کے بولے ہوئے کسی لفظ اور اٹھائے ہوئے کسی قدم سے سننے اور دیکھنے والوں خصوصاً نوجوان نسل کے اخلاق و کردار پر کوئی منفی اثر نہ پڑے ۔ عوام اپنے رہن سہن اور گفتار وکردار میں اپنے رہنماؤں کی اور بچے اپنے بڑوں کی تقلید کرتے ہیں۔ بادشاہ کسی باغ سے گزرتے ہوئے ایک پھل توڑ لے تو اس کا لشکر سارا باغ ہی اجاڑ دیتا ہے اس لئے رہنماؤں اور بزرگوں کو ایسی باتوںسے گریز کرنا چاہئے جو آنے والی نسلوں کیلئے مثال بننے کی بجائے بگاڑ کا سبب بنیں۔ سیاست میں مخالفین کو مضحکہ خیز ناموں سے پکارنے کی رسم ذوالفقا ر علی بھٹوسے چلی تھی۔ وہ کسی کو آلو خان، کسی کو ڈبل بیرل خان اور کسی کو چوہا کہتے ۔ یہ ایوب خان کی آمریت اور سیاسی گھٹن کا دور تھا اس لئے لوگ، خاص طور پر ان کے پیروکار، اس سے لطف اٹھاتے ۔ بھٹو سمجھتے کہ اس طرح کی باتوں سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اب ملک کی تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ اور ان کے ساتھی اس ’فن‘ کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مسلم لیگ ن اور بعض صورتوں میں دوسری پارٹیوں کے لیڈر اور کارکن بھی جواب آں غزل کے طور پر ان کے حملوںکا ترکی بہ ترکی جو اب دے رہے ہیں جس سے پرانی کے علاوہ نئی نسل بھی خوب محظوظ ہورہی ہے۔ مخالفوں کو چور ڈاکو، لٹیرا اور حرام کا مال کھانے والا وغیرہ کہنا تو معمول بن چکا ہے۔ اس سے بھی دل کو تسلی نہ ہو تو نوبت غلیظ گالیوں اور مکے بازی تک بھی آجاتی ہے جس کا مظاہرہ پچھلے دنوں پارلیمنٹ کے باہر معزز اور منتخب ارکان نے کیا۔ ٹی وی اینکروں کے سمجھانے کے باوجود جوشیلے سیاسی لیڈر ٹاک شوز میں بھی نہ کہنے والی باتیں کہہ دیتے ہیں جو گھروں میں بیٹھے بچے بوڑھے مردعورت سب سنتے ہیں۔ پاکستانی قوم ایک مہذب اور شائستہ قوم ہے۔ وقتی طور پر ہو سکتا ہے کہ مخاصمت کے جذبے کی تسکین کیلئے کسی کو یہ وتیرہ اچھا لگے لیکن جب عقل سلیم غالب آتی ہے تو کوئی بھی شخص ایسے القابات ایسے الفاظ اور ایسی باتوں کو رد کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک بڑے سیاسی لیڈر نے درست کہا ہے’’قومی سیاست میں غیر شائستہ زبان کے استعمال سے جمہوری، سیاسی اور اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچ رہا ہے، سیاستدان از خود ضابطہ اخلاق ترتیب دیں تاکہ اختلاف رائے اخلاقی حدود نہ پھلانگ سکے‘‘۔حضرت ابو دائودؓ سے روایت ہے کہ ’’نبیﷺ نے فرمایا‘‘ بندے کی میزان میں قیامت کے روز اخلاق حسنہ سے زیادہ کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی اور اللہ فحش بکنے والے اور بے ہودہ باتیں کرنے کو پسند نہیں کرتا۔(ترمذی) اسی طرح رسول اللہ ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جن کا اخلاق اچھا ہے( صحیح بخاری) پاکستان میں عام انتخابات تقریباً سال بھر کی دوری پر ہیں۔ ووٹروں کو جستجو ہوگی کہ امیدواروں میں سے اچھا کون ہے جسے ووٹ دیا جائے۔ حضور ﷺکے ارشادات پر عمل کیا جائے تو اچھے کی پہچان آسان ہو جائے گی۔



.
تازہ ترین