برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں 23مارچ 1940ء کا دن بلاشبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس نے برطانوی سامراج سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے مستقبل کے لائحہ عمل کی راہ متعین کی، قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے منٹو پارک میں منعقدہ تین روزہ سالانہ اجلاس کے موقع پر تاریخی قرار داد منظور کرتے ہوئے دو قومی نظریہ پیش کیا، قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ مسلمان قوم کی کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں اور ان کے پاس اپنا وطن، اپنا علاقہ اور اپنی ریاست ہونی چاہئے جہاں مسلمان مکمل طور پر اپنی روحانی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی بہتر انداز میں بسر کر سکیں۔ قرارداد میں مسلمانانِ ہند کی جانب سے باضابطہ طور پر حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کو اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل و ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کے آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں، ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائے اور اس طرح تشکیل پانے والی اکائیاں مکمل آزاد اور خود مختار ہوں گی۔ یہ تاریخی قرارداد ان حالات میں پیش کی گئی تھی جب 1936ء کے عام انتخابات میں ناکامی نے مسلم لیگ کے اس موقف کو شدید دھچکا پہنچایا تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی نمائندگی کا حق صرف مسلم لیگ کو حاصل ہے، کانگریس کے غیر ضروری مسلمان مخالف اقدامات کی بدولت مسلمانوں میں یہ تاثر تقویت پا گیا تھا کہ مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کی اصل وجہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونا ہے اور انگریزوں کے ہندوستان چھوڑ دینے کے بعد وہ کانگریس کے رحم و کرم پر ہوں گے، میں سمجھتا ہوں کہ یہی نقطہ آغاز تھا جس کی بنا پر قائداعظم نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور اس کا مقصد سیاسی طور پر مسلمان اکثریتی علاقے میں بسنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا نہ کہ ہندو مسلم تصادم کو پروان چڑھانا۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف صاحب نے بھی ہولی تہوار کے موقع پر اپنے خطاب میں اس تاریخی غلط فہمی کا خاتمہ کیا ہے کہ پاکستان کسی بھی قسم کے تصادم کیلئے نہیں بلکہ تصادم کی روک تھام کیلئے معرضِ وجود میں آیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرارداد میں لفظ پاکستان کہیں استعمال نہ ہوا تھا بلکہ مسلم لیگ کے مخالفین نے قراردادِ پاکستان کا نام دیا، شیر بنگال اے کے فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد کی تائید یوپی سے چوہدری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لئے علاقوں کی نشاندہی کیلئے 7اپریل 1946ء کو مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین کے زیر اہتمام تین روزہ دہلی کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس میں شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں صوبہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کا تو ذکر ہے لیکن مسلم اکثریتی علاقے کشمیر کا نہیں جو آج ستر برس گزرنے کا باوجود بھی علاقائی کشیدگی کی اہم وجہ ہے۔ ایک اور غور طلب امریہ ہے کہ قرارداد لاہور کے تحت دو عدد مسلمان اکثریتی مملکتوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے دہلی کنونشن کے موقع پر پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر قرارداد لاہور کی روح کے عین مطابق مسلمانوں کی دو آزاد اتحادی ریاستیں باہمی رضا مندی سے تقسیم ہند کے موقع پر ہی قائم ہو جاتیں تو نہ صرف سانحہ بنگلہ دیش سے بچا جا سکتا تھا بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بھی برقرار رکھا جا سکتا تھا، دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مملکت کی مثال نہیں جو جغرافیائی طور پر ایک ہزار میل کی دوری پر واقع ہو اور درمیان میں دشمن ملک ہو، مشرقی پاکستان نے زبان، ثقافت اور طرزِ زندگی میں واضح فرق کی بنا پر ایک نہ ایک دن الگ ہوہی جانا تھا۔ یومِ پاکستان کو عام طور پر قراردادِ پاکستان کی منظوری سے منسلک کیا جاتا ہے اور اس موقع پر حکومتی سطح پر پروقار تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں سیاسی اور عسکری قیادت شریک ہوتی ہے، مختلف شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایوارڈز دیئے جاتے ہیں۔ درحقیقت یومِ پاکستان کی تقریبات کا آغاز 23مارچ 1956ء کے آئین کی منظوری کی خوشی میں ہوا تھا لیکن دو برس بعد ہی ڈکٹیٹر ایوب خان نے مارشل لا لگا کر ملکی آئین معطل کر دیا اور یومِ پاکستان کی تقریبات کو یومِ جمہوریہ سے جدا کر کے قراردادِ پاکستان کی منظوری سے منسلک کر دیا۔ قراردادِ پاکستان میں اندرونی خود مختاری کی بات کی گئی تھی لیکن ایوب خان کے دورِ آمریت میں صوبائی خود مختاری کی نفی کرکے قرارداد پاکستان کی سنگین خلاف ورزی کی گئی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں بسنے والوں کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوا۔ میری نظر میں ہونا تو یوں چاہئے تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد قراردادِ پاکستان کو آئین کا حصہ بنایا جاتا لیکن اس کے برخلاف قراردادِ مقاصد کی منظوری کی شکل میں مسلم اور غیر مسلم سیاست دانوں کے درمیان وسیع خلیج حائل کی گئی۔ آج پاکستان کی خالق جماعت برسر اقتدار ہے اور وزیراعظم نواز شریف نے ہولی تہوار میں شرکت سے جو مثبت پیغام دیا ہے اس نے پاکستان میں بسنے والوں غیر مسلموں بالخصوص ہندو کمیونٹی کے دل جیت لئے ہیں۔ آج 23مارچ کا تاریخی دن تمام پاکستانیوں سے معاشرے سے انتہاپسندی اور شر انگیزی کا خاتمہ یقینی بنانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے، آپریشن ضرب عضب نے بلاشبہ دہشت گردی کے مراکز ختم کر دیئے ہیں لیکن ان عوامل کا نظریاتی طور پر بھی خاتمہ کیا جانا چاہئے جو معاشرے میں انتشار کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کا قیام ہندوستان میں مسلمان اقلیت کو اکثریت کے استحصال سے محفوظ رکھنا تھا تو اب مسلم اکثریتی پاکستان میں غیر مسلم اقلیت کو استحصال سے بچانا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا خوش آئند ہے، ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ان تمام غیر جمہوری اقدامات جو کانگریس نے برصغیر کی مسلمان اقلیت سے روا رکھے، ان سے پاکستان کی غیر مسلم اقلیت کو محفوظ رکھنا ہی ہمارا ملکی مفاد ہے، غیر مسلموں کے احساسِ محرومی اور عدم تحفظ کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جائے
پاکستان کیلئے ان کی مثبت خدمات کا اعتراف کیا جائے، آج یومِ پاکستان کے موقع پر پاکستان میں بسنے والا ہر غیر مسلم شہری یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جب وہ بھی اتنے ہی محب وطن اور جمہوریت پسند ہیں جتنے مسلمان شہری تو پھر ان کو اپنے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے حقیقی منتخب نمائندے پارلیمنٹ میں بھیجنے سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے؟
.