• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو شکم پروری کے بعد پاکستان کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جو اکثریت کے استحصالی رویے سے تنگ آئے ہوئے تھے، حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں 23مارچ 1940کو قراردادِ پاکستان منظور کی اور اس کے سات سال میں 14اگست 1947کو اس خواب کی تعبیر بھی دیکھ لی۔اپنی بات جاری رکھنے سے پہلے میں اپنے چند فیشن ایبل دوستوں سے معذرت چاہتاہوں کہ میں نے ’’جناح‘‘ لکھنے کی بجائے ’’قائداعظمؒ‘‘ لکھ دیا۔ ’’جناح‘‘ لکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن محمد علی جناح کو ’’قائداعظمؒ‘‘ لکھنے میں جو لطف ہے اس کی اپنی ہی بات ہے۔ میں کل یوم پاکستان کی پریڈ دیکھ رہا تھا اور میرا دل فخر و انسباط سے بھرا ہوا تھا۔ 1971میں جو ہوا وہ ہماری غلطیوں سے ہوا مگر اب پاکستان ناقابل تسخیر ہے۔ دشمنوں کی سازشیں اور ہماری اپنی بھیانک غلطیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن 1971میں پاکستانی عوام اپنوں اور اغیار کی کرتوتو ں سے بے خبر تھے اوریوں اس بے خبری میں مارے گئے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے، جو کچھ منظر اور پس منظر میں ہے وہ سب کچھ سامنے آ جاتا ہے اور یوں اب پاکستانی عوام خواب ِ غفلت کا شکار نہیں ہیں بلکہ جاگ کر پاکستان کا پہرا دےرہے ہیں۔
پاکستان بننے سے پہلے برصغیر کے مسلمان کس حالت میں تھے اس کی داستان اپنے ان بزرگو ں سے ضرور سنیں جو 1947میں ہجرت کرکے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے تھے اور اس پاک سرزمین پر اپنا قدم رکھنے سے پہلے انہوں نےاپنی جبین خاک ِو طن پر رکھ دی تھی۔ میں ایک بار دہلی کے کیناٹ پیلس میں ایک دکان پر کچھ خریدنے کے لئے گیا تو دکاندار نے مجھے شلوار کرتے میں ملبوس دیکھ کر پوچھا ’’مہاراج! آپ کہاں سے آئے ہیں‘‘ میں نےکہا ’’لاہور سے!‘‘ اس پر لالہ جی نے سرد آہ بھری اوربولے ’’میرے بزرگ بھی لاہور کے ہیں۔ انارکلی میں ہماری دکان تھی!‘‘ یہ سن کر میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’لالہ جی! انارکلی میں ساری دکانیں آپ کی تھیں، ہم مسلمانوں کی تو صرف تین دکانیں تھیں!‘‘ اس کے بعد وہ ریکارڈ بجنا شروع ہوگیا جو بھارتی حدود میں داخل ہونے کے بعد سنتے سنتے میرے کان پک گئے تھے ’’مہاراج کیا اچھے دن تھے، کیا ہندوستان دوبارہ متحد نہیں ہوسکتا؟‘‘ یعنی کیا پاکستان توڑا نہیں جاسکتا؟ اس کے جواب میں، میں نے جو کچھ کہا وہ سن کر اس کی سٹی گم ہوگئی۔ اغیار ہم سے ہمارا وہ پاکستان چھیننا چاہتے ہیں جس کے صدقے میں آج ہم بہت سی کمیوں کے باوجود وہ زندگی بسر کر رہے ہیں جو متحد ہندوستان میں گزارنا تو کجا اس حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ میرے استاد ڈکٹر وحید قریشی کہا کرتے تھے اگر پاکستان نہ بنتا تو میں پروفیسر امریطس ہونے کی بجائے کسی پرائمری اسکول میں ٹلی بجانے پر معمور ہوتا۔
جن احمقوں کا خیال ہے کہ آج پاکستان میں وہ جس پوزیشن میں ہیں اس میں پاکستان کا نہیں ان کی اپنی صلاحیتوں کا کما ل ہے، اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ صلاحیتیں کسی پوزیشن تک پہنچنے کے لئے ناگزیر ہوتی ہیں لیکن یہ صلاحیتیں ہندوستان میں ہمارے کام کیوں نہیں آتی تھیں؟اگر ہم میں سے کوئی اپنی صلاحیتوں کو آزمانا چاہتا ہے تو اس کے لئے رستے کھلے ہیں، وہ آج بھی ہندوستان جا کر آزما سکتا ہے۔ انڈیا میں تو صف ِ اول کے مسلمان اداکاروں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں۔ انہیں ممبئی میں کوئی جائیداد خریدنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ہماری ایک شاعرہ ضیاءالحق کے دور ِ آمریت میں ظلم و ستم سے تنگ آ کر انڈیا چلی گئی تھیں۔ انہیں شروع شروع میں ہاتھوں ہاتھ لیاگیا مگر کچھ ہی عرصے بعد ہماری شاعرہ کو ان کی اصلی شکلیں نظرآنا شروع ہوگئیں۔ انہوںنے ایک ملاقات میں مجھ سے کہا کہ وہ پاکستان واپس جانا چاہتی ہیں اور بالآخر محمدخان جونیجو کی وزارت ِعظمیٰ کے دوران وہ واپس اپنے وطن آنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی ادیبوں سے بھی انڈین حکومت ڈرنے لگی ہے چنانچہ ادبی تقریبات میں انہیں بلایا تو جاتا ہے مگر ’’پبلک‘‘ نہیں کیاجاتا۔
مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ انڈیا سے پاکستان کا وجود ہضم کیوں نہیں ہو رہا اور وہ مسلسل کھٹے ڈکار کیوں لیتارہتا ہے۔ ایک بار دہلی میں ناول نگار حیات اللہ انصاری نے میرے اعزاز میں ایک بڑا ڈنر دیا۔ میری ٹیبل پر ممبر پارلیمنٹ محمودہ بیگم بھی تشریف فرما تھیں جو اس زمانے میں اندرا گاندھی کی ناک کا بال تھیں، یہ ضیاء الحق کا دور تھا..... فرمانے لگیں’’آپ دانشور ہیں، ادیب ہیں، آپ کے ملک میں مارشل لا نافذ ہے اور ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔ آپ کو یہ کیسا لگتا ہے؟ میں نے کہا ’’بیگم صاحبہ یہ بریانی چکھیں بہت مزے کی ہے‘‘ میرے اس ٹالنے والے جواب کے باوجود فرمایا ’’آپ لوگ اس حکومت کے خلاف اٹھتے کیوں نہیں؟‘‘ تو اس دفعہ میں نے ان کی توجہ نرگسی کوفتوں کی طرف دلائی۔ مگر جب وہ نہ ٹلیں تو میں نے کھانے سے ہاتھ کھینچا اور کہا ’’بیگم صاحبہ جمہوریت کا منشا و مقصود کیا ہے؟‘‘ بولیں ’’عوام کی خوشحالی اور ان کی بہتر زندگی!‘‘ میں نے پوچھا ’’انڈیا میں جمہوریت ہے، کیااب لاکھوں عوام ممبئی اور دہلی کے فٹ پاتھوں پر نہیں سوتے؟‘‘ بولیں ’’بٹوارے کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے بچہ فٹ پاتھ پر پیدا ہو تا ہے، جوان ہوتا ہے، اس کی بارات دوسرے فٹ پاتھ پر جاتی ہے اور پھر فٹ پاتھ ہی سے اس کی ارتھی اٹھائی جاتی ہے‘‘ اس پر میں نےکہا ’’بیگم صاحبہ! آپ میری مہمان کےطور پر پاکستان تشریف لائیں اور پشاور سے کراچی تک سفر کریں اگر آپ کو ایک شخص بھی فٹ پاتھ پر سویا ہوا مل جائے تو میں آپ کی جمہوریت کا قائل ہو جائوں گا‘‘ میں نے یہ واقعہ اپنے کالم میں لکھا اور اس کے ساتھ یہ نوٹ دیا ’’جنرل صاحب! اس واقعہ کو بنیاد بنا کر مارشل کو طول نہ دیں میں پاکستان سے باہر اپنے کسی بھی ادارے میں کوئی منفی بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا چنانچہ میں نے یہ باتیں محض محترمہ کامنہ بند کرنےکے لئے کی تھیں۔‘‘
اور اب ما شاء اللہ میرا پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ میرا پاکستان سی پیک والا پاکستان ہے۔ میرا پاکستان بہت تیزی سے معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ لیکن ابھی ہم نے بہت کچھ کرنا ہے۔ عوامی خوشحالی کی ایک بڑی لہر آئی ہے ان کے تمام حقوق انہیں دلانے ہیں۔ہم نے پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنانا ہے اور ان شاء اللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی!
23مارچ خوشیوں بھرا دن ہے اور اس کے صدقے میں ملنے والی خوشیاں ہم نے بیس کروڑ عوام میں منصفانہ طور پر تقسیم کرنا ہیں!

.
تازہ ترین