• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو۔ جنگجو سلطان مراد ابھی صرف 40برس کا ہی تھا کہ اس نے اپنے تیرہ سالہ بیٹے شہزادہ محمد کے حق میں تاج و تخت چھوڑ دیا اور منیسا چلا گیا۔ وزیراعظم خلیل پاشا مراد کو مسلسل واپسی کی درخواستیں بھیجتا رہا کہ کم عمر سلطان محمد کیلئے حکومت چلانا ممکن نہیں۔ ادھر کم سن تیرہ سالہ تند خو سلطان نے جوش و خروش کے ساتھ قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردیں تو وزیراعظم نے اسے ناپختگی اور نااہلی کی مثال قرار دیتے ہوئے سابق سلطان سے پھر واپسی کی درخواست کی جس پر مراد نے گوشتہ نشینی ترک کی اور ستمبر 1446ء میں ایڈرین واپس آگیا۔ شہزادہ محمد منیسا چلا گیا۔ اسی دوران جان نہیاڈی نے ترکوں کے خلاف صلیبی لشکر اکٹھا کرلیا۔ سلطان مراد نے جنگی تیاریاں شروع کیں اور ساتھ ہی شہزادہ محمد کو بھی طلب کرلیا۔ 23 اکتوبر 1448ء کو سووا میں خوفناک جنگ لڑی گئی۔ یہ وہی میدان جنگ تھا جہاں 1389ء میں سلطان مراد اول نے سربوں کو شکست دی تھی۔ اس دوسرے معرکہ کا نتیجہ بھی پہلے جیسا نکلا۔ ترکوں نے تین روزہ جنگ میں دشمن کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس جنگ میں نوجوان شہزادہ محمد باپ کی فوج کے دائیں بازو یعنی اناطولی دستوں کی قیادت کررہا تھا۔ اس کی شجاعت اور کمانڈ خیرہ کن تھی۔ 1451ء سلطان مراد کثرت مے نوشی کے سبب فوت ہوگیا۔ تب اس کی عمر صرف 47 برس تھی، اس نے 30 برس حکمرانی کی جس کا بیشتر حصہ میدان جنگ میں گزارا۔ وزیراعظم خلیل پاشا نے شہزادہ محمد کی منیسا سے آمد تک سلطان مراد کی موت کو خفیہ رکھا۔ پندرہ دن بعد شہزادہ محمد کے پہنچتے ہی اسے سلطان تسلیم کرلیا گیا۔ یہ شہزادہ محمد کی 19 ویں سالگرہ سے ایک ماہ پہلے کا واقعہ ہے۔ اب ایک بار پھر وہ شہزادہ محمد سے سلطان محمد بن چکا تھا لیکن .....’’سلطان محمد فاتح‘‘ بننے میں ابھی وقت درکار تھا۔ وہ اپنے وزیراعظم خلیل پاشا سے متنفرتھا جو اسے ’’گستاخ، تشدد پسند اور وحشی‘‘ قرار دیتا تھا لیکن تاریخ اس کے سر پر سدا عظمت کا تاج سجانے کیلئے بیتاب تھی۔ اس نے فرمان جاری کیا۔’’میرے بیٹوں میں سے جو بھی سلطان کا جانشین بنے، اسے حق ہے کہ وہ سلطنت کے نظم کی بہتری کیلئے اپنے بھائیوں کو قتل کردے۔ بیشتر مقنن اس عمل کی منظوری دے چکے ہیں۔ آئندہ میرے حکم کے مطابق عمل کیا جائے۔‘‘عقاب کی نظریں اپنے شکار قسطنطنیہ پر تھیں جسے دنیا ناقابل تسخیر سمجھتی تھی۔ 1452ء کے موسم گرما میں سلطان محمد نے بحیرہ باسفورس کے یورپی ساحل پر رومیلی حصار نامی عظیم قلعہ تعمیر کرایا جس کی تعمیر دراصل آئندہ محاصرہ کا پہلا مرحلہ تھا جس کے بعد بحیرہ اسود سے قسطنطنیہ کیلئے ہر قسم کی رسد مکمل طور پر بند کی جاسکتی تھی۔اپنے عہد کے عظیم ترین جنگی جینیئس نے 6 اپریل 1453ء کو محاصرہ کا آغاز کیا۔ سلطان محمد کا خیمہ سینٹ رومانس کے گیٹ کے سامنے نصب تھا جب اس نے توپ خانہ کو شہر پر بم برسانے کا حکم دیا۔ 29 مئی 1453ء تک شہر نڈھال ہو کر خود اپنے قدموں پر ڈھیر ہوگیا۔ صبح سویرے ترک شہر میں داخل ہوگئے۔ بازنطینی سلطنت اپنے انجام کو پہنچ گئی، ایک ایسی سلطنت جس کا عرصہ حکومت ہزار سال پر محیط تھا۔ اب یہ قدیم عیسائی سلطنت ایک نئی اور طاقت ورمسلمان سلطنت کا حصہ تھی۔اب وہ سلطان محمد نہیں ..... سلطان محمد فاتح تھا۔ مئی کی ایک سہ پہر وہ شہر میں داخل ہوا۔ وہ ایڈریانوپلی گیٹ سے گزر رہا تھا جب اس کے جنگجوئوں نے بے ساختہ اسے ’’فاتح، فاتح‘‘ کہہ کر پکارا جس کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسی لقب سے مشہور ہوگیا۔ آج جب صرف ’’فاتح‘‘ کہا جائے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے .....’’سلطان محمد فاتح‘‘۔ اب شہر کا نام ’’استنبول‘‘ تھا جو یونانی زبان کے لفظ "STIN POLI" کی بدلی ہوئی شکل ہے۔اس فتح کوبیان کرتے ہوئے ایک یونانی کرٹیوولوس آف امبروس اپنی کتاب "HISTORY OF MEHMET THE CONQUEROR" میں لکھتا ہے۔’’سلطان شہر میں داخل ہوا اور اس نے اس کی وسعت، محل و وقوع، خوبصورتی، شان و شکوہ، کثیر آبادی، دلکشی، گراں قدر گرجا گھروں اور دیگر دلآویز عمارتوں کو دیکھا۔ ان کی بربادی کا مشاہدہ کیا تو اس کا دل رحم سے لبریز ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ بولا .....’’کیسا شہر تھا جسے ہم نے برباد کر ڈالا‘‘۔ سلطان شہر کی سب سے بڑی سڑک مڈل وے پر گھوڑا دوڑتا ہوا چھٹی پہاڑی سے پہلی پہاڑی تک گیا۔ یہاں وہ ایا صوفیا پہنچا۔ اس عظیم چرچ کو شہنشاہ جسٹینین نے 532-7میں تعمیر کروایا تھا۔ وہاں پہنچ کر سلطان محمد فاتح گھوڑے سے اتر گیا۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا۔ پھر اس نے مٹی اٹھائی اور اپنی پگڑی پر ڈال دی۔ یہ علامت تھی عاجزی اور انکساری کی کیونکہ یہ تاریخی چرچ اسلام میں بھی اتنا ہی محترم تھا جتنا کہ عیسائیت میں‘‘۔ عمارت کا جائزہ لینے کے بعد اس نے چرچ کے ساتھ مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا ..... استنبول کی پہلی مسجد جہاں یکم جون 1453ء کو سلطان نے جمعہ کی نماز ادا کی۔
تازہ ترین