• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طے کیا تھا کہ آج کا کالم خصوصی طور پر اورنج لائن منصوبے کے نام کروں گا مگر ملکی سیاست میں الزامات کی نئی بوچھارنے مجھے مجبور کیا ہے کہ چند دیگر حقائق بھی قارئین کے سامنے رکھ سکوں۔ اورنج لائن منصوبے کے حوالے سے قارئین کے پیغامات بھی موصول ہوئے جو آج شدید اذیت اور کرب کی کیفیت کا شکار ہیں۔ حکم امتناع اور زیر التوا معاملات نے شہریوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ جو لوگ خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے کہ لاہور ملک کا پہلا شہر ہوگا، جہاں پر یورپ اور لندن کی طرز پر جدید ٹرین سفری سہولت مہیا کرے گی، آج شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ منصوبے کو درمیان میں روکنے سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جس کا اکثریتی کام حکومت مکمل کرچکی ہے مگر چند مقامات پر کام رکنے کے باعث اداروں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ عوام کی طرف سے موصول ہونے والے پیغامات سے یہ تاثر تو شدت سے سامنے آیا ہے کہ یہ منصوبہ پنجاب حکومت کی وجہ سے تاخیر کا شکار نہیں ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ہر منصوبے کو مقررہ وقت سے پہلے مکمل کرنا شہباز شریف کی زندگی کا مشن ہے مگر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے والے لوگ اس منصوبے کی راہ میں روڑے نہ اٹکاتے تو اب تک لاہور کے غریب طلباء و طالبات، عورتوں و معصوم بچوں، ضعیف و معمر حضرات اس ٹرین سے مستفید ہو رہے ہوتے۔ جس طرح حکومت اورنج لائن کو جلد از جلد مکمل کرنے میں سنجیدہ ہے، اب دیگر اداروں کو بھی شہریوں کو سکھ دینے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ منصوبہ مکمل نہ ہوا تو شہباز شریف یا کسی اور کا نہیں بلکہ عوام کا نقصان ہوگا اور غریب شہریوں کا اداروں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ جب کبھی تاریخ لکھی جائے گی تو ذکر ہوگا کہ کون کون سے چہرے عوامی مفاد عامہ کے منصوبے میں رکاوٹ بنے رہے۔ سستی اور باعزت ٹرانسپورٹ شہریوں کا بنیادی حق ہے۔
تکلیف ہوتی ہے کہ جب یہ خاکسار میٹرو کے حوالے سے حقائق گوش گزار کرتا تھا تو عمران خان سمیت تحریک انصاف کے سینئر رہنما شدید تنقید کرتے تھے لیکن آج جب عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کو پشاور میں میٹرو بنانے کے لئے تڑپتا دیکھتا ہوں تو دلی اطمینان ہوتا ہے کہ فائدہ میرے پختون بھائیوں کا ہوگا۔ میٹرو اور اورنج لائن کی کامیابی کیلئے اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ آج اس کے مخالف بھی اس میں سفر کرنے کبلئے بیتاب ہیں اور اپنے اپنے صوبوں میں اسے شروع کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔
جبکہ دوسرا اہم معاملہ الزامات لگانے کا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ پنجاب کو سندھ کی طرح بنائیں گے۔ میرا سوال ہے کہ زرداری صاحب تھر کس شہر کو بنائیں گے؟ زرداری صاحب نے پنجاب کے وزیراعلیٰ پر کمیشن اور کرپشن کرنے کا بھی الزام لگایا۔ جس کے جواب میں زرداری صاحب کو تلخ حقائق کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ دیکھیں اگر زرداری کو کرپٹ کہا جاتا ہے تو یہ ان عدالتی فیصلوں اور ثابت شدہ کرپشن کے الزامات کی وجہ سے ہے جو آصف زرداری کے ماضی کا حصہ ہیں۔ ایسا ماضی جس کا سامنا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جیسی بڑی لیڈر نے بھی کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ شہباز شریف کو تو کبھی کسی ادارے یا عدالت نے کرپشن کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ دو سال قبل احتساب ادارے اور متحرب قوتوں نے خفیہ اداروں کے ذریعے پنجاب کے ہر محکمے کی خوب جانچ پڑتا ل کی۔ شاید ہی کوئی سرکاری کاغذ ہو جسے الٹا سیدھا نہ کیا گیا ہو مگر بالآخر تمام ادارے کہنے پر مجبور ہوئے کہ پنجاب کے کسی بڑے منصوبے میں کرپشن نہیں ہے۔ یہ مضبوط کردار ہی تھا کہ سابق آرمی چیف بھی سول عسکری تعلقات میں آزمائشی حالات کے دوران بھی شہباز شریف نہیں بلکہ ’’بھائی جان‘‘ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ جنرل (ر) راحیل شریف جانتے تھے کہ شہباز شریف کرپٹ انسان نہیں ہے، اس کی ایمانداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ منصوبوں کی بات کریں تو عدالت نے اورنج منصوبے کی شفافیت کو خود تسلیم کیا تھا۔ اگر آج وہ اپنے دفتر سے مخاطب ہوتا ہے اور روجھان مزاری، دائرہ دین پناہ میں بیٹھا ہوا اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی کانپ جاتے ہیں کہ ’’ظالمو ڈرو شہباز شریف آرہا ہے‘‘ تو یہ اس کے مضبوط کردار کی وجہ سے ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں بڑے بڑے حکمران آئے ہیں مگر آج بھی پنجاب کی تاریخ مہاراجہ رنجیت سنگھ کو یاد رکھتی ہے۔ جس نے غیرمعمولی اصلاحات کے ذریعے لوگوں کے دل جیتے تھے۔ اس کا متعارف کرایا گیا پولیس اور پٹواری کا نظام 200سال تک چلتا رہا ہے۔ لیکن اگر آج اس نظام میں کسی نے مزید بہتر ریفارمز کی ہیں تو وہ شہباز شریف ہے۔ آج پنجاب میں صدیوں پرانا ریونیو کا نظام تبدیل ہو کر کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ بن چکا ہے، پولیس میں ماڈل تھانوں اور کمپیوٹرائزڈ ایف آئی آر متعارف کرانا بڑی کامیابی ہے۔ جنوبی پنجاب کے شہر ملتان میں قائم ہونے والا انسداد تشدد مرکز برائے خواتین ایشیا کے بہترین مراکز میں سے ایک ہے۔
اس لئے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے اگر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب کو کوئی حکمران میسر آیا ہے تو اس کا نام شہباز شریف ہے۔ مسلم لیگ ن بے شک ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہے مگر عام انتخابات میں راجن پور سے پہلے اور اٹک کے بعد مسلم لیگ ن کہاں تھی۔ لوگ اب سمجھدار ہو چکے ہیں۔ کارکردگی کو ووٹ پڑتے ہیں۔ حالانکہ میاں صاحبان 2008میں جلا وطنی کاٹ کر الیکشن لڑ رہے تھے۔ مقبولیت کا گراف عروج پر تھا مگر پنجاب سے ممبر صوبائی اسمبلی کی سیٹیں مشکل سے 130تک پہنچی تھیں مگر جب کارکردگی دکھائی گئی تو پھر ناقدین بھی حیران رہ گئے کہ آج پنجاب اسمبلی میں 304ممبر صوبائی اسمبلی کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کے قائد ہیں مگر اس جماعت کے پاس آج کے دن تک جو Presentableچہرہ ہے تو وہ شہباز شریف ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں منفی پہلو تلاش کرتے ہیں۔ سیاستدانوں پر تنقید اور آدھا گلاس خالی بتانے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اب ہمیں اس سلسلے کو ختم کرنا ہوگا اگر کوئی شخص غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہو تو اس کا اعتراف کرنا چاہئے تاکہ دیگر لوگوں میں بھی حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو اور ویسا کام کر سکیں۔ بدقسمتی ہے کہ اگر کسی سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کو گالی دیں تو داد ملتی ہے لیکن اگر کسی کی جائز تعریف کریں تو بیمار ذہن میدان میں کود پڑتے ہیں۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سوچ میں منفی پن اس حد تک سرایت کرگیا ہے کہ ہم ہر چیز پر تنقید کرتے ہیں اور اسے برا کہنے پر خود کو بڑا محسوس کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں بہتر پاکستان کے لئے اپنے رویوں اور سوچ کے زاویوں میں تبدیلی لانا ہوگی وگرنہ یونہی پاتال کی طرف ہمارا سفر جاری رہے گا۔



.
تازہ ترین