• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ باب بہت دلچسپ ہے کہ2007میں چیف جسٹس آف پاکستان کی فوجی حاکم جنرل مشرف کو جرأتمندانہ ’’نہیں‘‘ سے وکلاء کی ’’آزاد عدلیہ‘‘ کے قیام کی جس ملک گیر تحریک کا آغاز ہوا، اس کا ابتدائی نتیجہ وہ نہ نکلا جو اس تحریک کا بنیادی ہدف تھا، بلکہ ملک کی دونوں روایتی’’ملک بدر‘‘ سیاسی قوتوں نے تحریک کی حمایت کرتے ہوئے کمال فنکاری سے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا۔ سو، وکلاء کی تحریک کا پیشہ ورانہ نوعیت کا ہدف تو پیچھے رہ گیا، تحریک عوامی اور سیاسی زیادہ ہوگئی (اگرچہ فرنٹ لائن پر وکلاء ہی رہے) اور اس کا ابتدائی نتیجہ بھی پی پی اور ن لیگ کے حق میں نکلا۔ یوں کہ ان کی وہ ’’جلاوطن‘‘ قیادت جو فوجی، سول حکومت کے عائد کئے گئے بدترین گورننس خصوصاً کرپشن کے الزامات میں سزا سے بچنے کے لئے بیرون ملک ’’پناہ گزین‘‘ تھی، این آر او کے سیاہ آمرانہ قانون کی مدد سے دوبارہ پاکستان وارد ہونے کی اہل ہوگئی۔ گویا تحریک کی پہلی اور بےپناہ بینی فشری یہ بنی، لیکن بننے سے پہلے پی پی تو اپنی تاریخ کے ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہوئی۔ محترمہ بینظیر کے سیاسی منظر سے غائب کردئیے جانے سے تو اقتدار آصف زرداری کی قیادت کے باوجود ملنا آسانکیا ہوتاجھولی میں آن گرا، لیکن بی بی کے بعد پی پی بھی گھلنے لگی اور یہ اسٹیٹس کو کے بدترین رنگ میں رنگی گئی، حتیٰ کہ زرداری صاحب صدر مملکت اور ملک کے اصل حاکم بن کر اقتدار پر براجمان ہوئے تو وہ اس پر آمادہ نہ تھے کہ جس تحریک نے ان کے بلند ترین رتبے کی راہ ہموا ر کی جو آئینی بھی تھا اور غیر آئینی بھی، وہ اس کے ہدف ’’آزاد عدلیہ کا قیام‘‘ پر آمادہ نہ تھے۔ انہوں نے بڑی بیباکی سے اس ہدف کو دبائے رکھنے اور لندن والے’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ سے جان چھڑانے کا یہ کہہ کر کھلا اعلان کیا کہ یہ کوئی آسمانی صحیفہ نہ ہے۔
آصف زرداری صدر مملکت کے ساتھ’’اصلی حاکم‘‘ بن کر یہ بھول چکے تھے کہ بلاشبہ بی بی کے خون بہا سے ان کے اقتدار میں آنے سے ان کے اقتدار میں آنے کا جو معجزہ رونما ہوا ہے، اس کے متوازی،’’آزاد عدلیہ کے قیام‘‘ پر قوم کے کامل اتفاق رائے کی قوت بھی موجود ہے ا ور وہ وکلاء تحریک کے ہدف کو’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ کی طرح نظر انداز نہ کرسکیں گے۔ سو کمال ہوشیاری سے انہوں نے لانگ مارچ کا آغاز کرکے اپنی پوزیشن کا تحفظ کیا اور ہدف حاصل ہوا۔ اس مرحلے پر جناب میاں نواز شریف نے اسٹیٹس کو کی ا پروچ کے ساتھ زرداری حکومت کو زیادہ سے زیادہ فری ہینڈ، جو بعد میں فرینڈلی اپوزیشن میں ڈھل گیا، دینے کے باوجود،یہ سمجھ لیا کہ ’’آزاد عدلیہ‘‘ کے قیام کا ہدف پورا کرائے بغیر ان کا کاروبار سیاست بھی نہ چل پائے گا، وگرنہ آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ ہر دو روایتی سیاسی قوتوں پی پی اور ن لیگ کا اتفاق چارٹر آ ف ڈیموکریسی سے زیادہ اب اسٹیٹس کو برقرار رکھنے پر زیادہ تھا، خواہ ادارے برباد ہوتے جائیں، ’’بحالی جمہوریت‘‘ کے بعد بحال ہونے والی بدترین کرپشن بھی جاری و ساری رہے۔
عمران خان کی’’تبدیلی‘‘ کا چیلنج اب ماضی کے اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ بڑا چیلنج بن گیا تھا، جو دونوں کے لئے مشترکہ خطرہ تھا کہ خان نے پورے زور شور سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کردیا تھا، لہٰذا انتخابی مہم اور پھر انتخابات کی آئینی تیاریوں میں چارٹر آف ڈیموکریسی کی دھجیاں اڑ گئیں اور روایتی متنازع و مشکوک انتخابات ویسے کے ویسے ہی ہوئے جو 1997تک ہوتے رہے۔ میاں نواز شریف بھول گئے کہ جب وہ اس بنتے نئے سیاسی منظر میں اسٹیٹس کو کے برخلاف اپنے ایک ہی اقدام ’’لانگ مارچ‘‘ کی طرف آئے، اس کا نتیجہ فوری، جامع اور جمہوری نکلا اور اس کے ابھی بھی جاری کئی غیر جمہوری اقدامات اور اسٹیٹس کوکی جاری پیروی پر وقتی پردہ پڑگیا، لیکن پھر انہوں نے خود ہی فرینڈلی اپوزیشن اور’’مفاہمت‘‘ زدہ ہو کر اسٹیٹس کو کا لبادہ پھر (نمک کی کان میں داخل ہو کر نمک) اوڑھ لیا اور وہ انتخابی مہمات میں اسی طرح نظر آتے رہے، تاہم وہ پی پی کی بدترین کارکردگی کے ساتھ ساتھ اسٹیٹس کو کی سابقہ اپروچ مہارت سے اختیار کرتے ہوئے خاں کی ’’تبدیلی‘‘ میں رکاوٹ پیدا کرنے میں خاصے کامیاب ہوئے۔
معاملہ روایتی اور بے اعتبار اور مشکوک انتخابات کے بینی فشری بننے تک نہیں رہا، ن لیگ نے اپنی باری شروع ہونے پر کون سی چارٹر آف ڈیموکریسی سے وفا کی۔ چارٹر تو ایک طرف، کونسا’’آئین کے مکمل نفاذ اور قانون کے یکساں نفاذ‘‘ کیلئے کچھ کیا۔ ٹیکس اصلاحات، انتخابی اصلاحات، کرپشن پر قابو، میرٹ کی دھجیاں احتساب کچھ بھی تو نہ ہوا۔ اسٹیٹس کو کے جاری و ساری رہنے کا بھانڈا اب (ن) لیگ کے اتحادی اور قومی اسمبلی میں خارجی تعلقات کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان نے بھی اعتراف کیا ہے کہ خارجہ پالیسی کمزور رہی؟ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں رہی؟ کون سا جمہوری ملک ہے، امریکہ، برطانیہ، بھارت، جہاں خارجی امور میں سیکورٹی اداروں کی مشاورت یا ان پُٹ نہیں لی جاتی اور انہیں اہمیت نہیں دی جاتی؟ لیکن ہماری اس بڑی قومی ضرورت کے خلاف جو احتجاج موجودہ حکومت کی’’اہل اور مکمل وزیر خارجہ کے مطالبے پر‘‘ 4سالہ چپ جاری ہے، وہ اپنی جگہ غیر جمہوری، غیر آئینی خلاف حلف اور اسٹیٹس کو کا شاہکار انداز ہے۔ یہ وہ وقت تھا اور ہے اور جبکہ پاکستان کیلئے نئے خطرات اور اس سے کہیں زیادہ سازگار بنتی علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں، وزارت خارجہ کی کارکردگی تین چار گنا بڑھانا اہم ترین قومی ضرورت بنی، لیکن پاکستان اس وزارت میں ماضی کے اسٹیٹس کو کے ادوار سے بھی بدتر صورتحال سے دوچار ہوگیا۔ نہ جانے مولانا فضل الرحمان کے دل پر یہ بوجھ کیسے پڑا کہ وہ کم از کم اتنا اعتراف تو کرلیں کہ خارجہ پالیسی کمزور رہی، جبکہ مودی کے دورہ مقبوضہ کشمیر میں ویرانے سے ویرانے نے پاکستان کو پھر پکارا ہے کہ کدھر جمہوریت حکومت کی خارجہ پالیسی؟ یا ہمارے خارجی امور سی پیک کی چینی قومی ضرورت میں ہی بند ہوگئے؟ قوم تو آج بھی اس کی تفصیلات اور قطر سے درآمدی گیس کے معاہدے کی تفصیلات سے محروم ہے، جو انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے محروم و مفلوک پاکستانی قوم کو مہنگے تحفے کے طور پر پیش کی جائے گی۔



.
تازہ ترین