• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض لوگ ایسے مسکراتے ہیں لگتا ہے ساری کائنات مسکرا رہی ہے

m.islam@janggroup.com.pk
کراچی (تجزیہ :۔ محمد اسلام) مسکراہٹ اللہ کی نعمت ہے جس پر کچھ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا، بس آپ ارادہ کر لیں اور لبوں پر مسکراہٹ بکھر جائے گی۔ آپ بخوبی واقف ہونگے مسکراہٹ عمومی بھی ہوتی ہے اور خصوصی بھی۔ بے معنی بھی اور بامعنی بھی۔ بعض اوقات زہریلی بھی ہوتی ہے مگر وہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ یوں تو بچے، نوجوان اور بوڑھے سب ہی مسکراتے ہیں مگر لڑکیوں اور خواتین کی مسکراہٹ زیادہ زیر بحث آتی ہے۔ آپ مونا لیزا کو ہی لے لیجئے۔ آج تک اس کی مسکراہٹ کا چرچا ہے جبکہ اس سے بہتر کئی مونا لیزا اب تک جنم لے چکی ہیں۔ فی الوقت میں ایک سروے کا ذکر بھی کروں گا جس میں کہا گیا ہے کہ 1900 ء سے 1950ء کے عشروں میں خواتین میں تصویر بنواتے وقت مسکرانے کا رجحان زیادہ تھا۔ یہ کوئی خاص بات نہیں کیونکہ تصویر بنواتے وقت ہر ایرا غیرا نتھو خیرا مسکرانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری بات ہے کہ اس زمانے میں آج کے مقابلے میں حالات زیادہ پرسکون تھے، اس لئے مسکرانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن عصر حاضر میں مسکرانا دہشت گردی کے خاتمے کی طرح مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دیکھئے زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔ پہلے خواتین تصویر بنواتے وقت مسکراتی تھیں لیکن لڑکیاں تصویر بنواتے وقت مسکرانے کی بجائے ٹیڑھے سیدھے منہ بناتی ہیں اور بعض اوقات خود بھی ٹیڑھی سیدھی ہو جاتی ہیں۔ حکیم شرارتی کا کہنا ہے کہ بعض لوگ ایسے مسکراتے ہیں لگتا ہے ساری کائنات مسکرا رہی ہے۔ دراصل ایسے ہی لوگوں سے دل کی دنیا آباد ہے اور اگروہ نہ مسکرائیں تو پھر انور شعور کا فارمولا استعمال کیا جا سکتا ہے ؎صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میںخود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہخواتین تصویر بنواتے وقت ہی نہیں ہنستی بلکہ ایسے دیگر مواقع بھی آتے ہیں جب وہ خوب مسکراتی ہیں۔ حکیم شرارتی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ بعض خواتین آئینے کے سامنے اکیلے میں بھی مسکراتی ہیں اور کوئی چھپ کر دیکھ لے تو شرما بھی جاتی ہیں۔ بہرکیف مسکرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔ براہ کرم مسکرایئے ورنہ ڈپریشن ہوسکتا ہے۔ مشکل حالات کا مقابلہ بھی مسکراہٹ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ نہیں مسکراتے تو ہم پھر یہی عرض کریں گے ؎اک بار مسکرا دو، ایک بار مسکرا دویہ بات منی بیگم بہت بار کہہ چکی ہیں لہٰذا اب تو مسکرا دو بھیا! دراصل ہمارے نوجوانوں کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، مہنگی تعلیم اور دہشت گردی نے ان کی مسکراہٹ چھین لی ہے لیکن ان حالات میں بھی مسکراہٹ ٹانک کا کام کرسکتی ہے۔ آپ کو معلوم ہے جن ظالموں نے جوانوں کے چہرے سے مسکراہٹ چھینی ہے وہ بھی مسکراہٹ سے ترس گئے ہیں، ان کے چہرے بھی ستے ہوئے ہیں۔ برادران اسلام! چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کر کے مسکرا دینے سے زندگی خوشگوار ہوسکتی ہے۔ آپ اپنی مسکراہٹ سے بڑے بڑے کام نکال سکتے ہیں۔ دیکھئے اصغر گونڈوی کے اس شعر میں مسکراہٹ سے کیا کام لیا گیا ہے ؎
ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیش تر
تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا
تازہ ترین