• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باڑ لگانے کا فیصلہ؟ خصوصی مراسلہ…ملک الطاف حسین

افغانستان پاکستان کا برادر اسلامی اور پڑوسی ملک ہے جس کے ساتھ ثقافتی‘لسانی اور تاریخی رشتے بہت گہرے ہیں تاہم یہ حالات کی ستم ظریفی یا حکمرانوں کی نااہلی اور سامراجی ممالک کی سازشوں کا نتیجہ ہے کہ ’’پاک افغان تعلقات‘‘ کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔ ظاہرشاہ اور سردار دائود سے لیکر ببرک کارمل، ڈاکٹر نجیب، پروفیسر برہان الدین ربانی‘حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی تک پاک افغان تعلقات عدم اعتماد اور اختلافات کا شکار رہے جو بڑھتے بڑھتے اب کشیدگی کی صورت اختیار کرچکے ہیں ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ قوم پرست، علیحدگی پسند رہنما ہمیشہ کابل حکومت ہی کے مہمان خاص رہے جیسا کہ آج پاکستان کو مطلوب دہشت گرد افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں الذولفقار نامی مسلح تنظیم بھی کابل ہی سے آپریٹ ہوتی رہی۔لہٰذا اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان کی یہ مجبوری تھی کہ وہ پاک افغان سرحد کی بندش اور بارڈر مینجمنٹ پر توجہ دے۔70سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کوکو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے طورخم اور چمن کے علاوہ میران شاہ‘مہمند اور کرم ایجنسی کے پاک افغان راستوں پر باقاعدہ گیٹ بناکر ویزا انٹری پوائنٹس بنانے کے اقدامات شروع کردیئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ ایک بڑا قدم یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل پاک افغان بارڈر پر خاردار باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ خندقیں کھودنے کاکام بھی شروع کردیا گیاہے۔پاکستان کے داخلی امن کو افغانستان میں موجود شرپسند عناصر سے محفوظ رکھنے کیلئے حکومت پاکستان کے مذکورہ تمام اقدامات درست نظر آتے ہیں تاہم یہ تصویر کا ایک رخ ہے اس میں جس قدر رنگ بھرتے جائینگے پاک افغان دوستی کی تصویر اتنی ہی معدوم اور تحلیل ہوتی جائے گی۔ کیونکہ باڑ لگانے یا خندقیں کھودنے سےسرحد کی یقینی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی بلکہ اس عمل سے سرحد کے دونوں اطراف موجود آبادی مشتعل ہوگی اور ان کے مسائل میں اضافہ ہوگا جو آگے چل کر مزید نقصان دہ ہوگا جبکہ بارڈر مینجمنٹ کے ذمہ داران اسی بات سے بخوبی آگاہ ہونگے کہ پاک افغان سرحد پر موجود تمام خفیہ راستوں، دشوار گزار گھاٹیوں اور چوٹیوں کو بندیاسیل کرناممکن نہیں۔ بہرحال کہنے کی بات یہ ہے کہ پاک افغان کشیدگی یا افغانستان سے پاکستان کے اندر دراندازی روکنے کیلئے اقدامات اٹھاتے وقت ’’افغان حکومت‘‘ اور ’’افغان عوام‘‘ میں فرق کیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت عوام کی نمائندہ حکومت نہیں بلکہ امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔ افغان عوام امریکی و نیٹو افواج کے قبضے اور تسلط سے آزادی چاہتے ہیں جیساکہ انہوں نے سویت یونین سے وطن کی آزادی اور خودمختاری بحال کروائی تھی جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت حامد کرزئی‘ ڈاکٹر نجیب اور ببرک کارمل کی طرح غیرملکی سامراجی قوتوں کا افغانستان پر قبضہ اور تسلط مستحکم رکھنا چاہتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں سرحد پر باڑ لگانے، خندقیں کھودنے یا وقتاً فوقتاً باب دوستی بند کردینے سے پاک افغان شہریوں کو تکلیف اور پریشانیوں میں مبتلا کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔لہٰذا ہمیں ایسا فیصلہ کرنا ہوگا کہ جس کے بعد یقینی طورپر افغانستان کی سرزمین پر نہ صرف پاکستان کیلئے کوئی خطرہ باقی نہ رہے بلکہ خود افغانستان سمیت پورا خطہ ہی امن و استحکام سے ہمکنار ہوجائے۔ یہ جب ہی ممکن ہوگا کہ جب افغانستان میں موجود تمام غیرملکی فوجوں کو فوری انخلا ہو جائے تاکہ افغانستان کی آزاد اور خودمختار حیثیت بحال ہو۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحد پر خاردار باڑ لگا دی جائے، خندقیں کھودی جائیں یا ایک ایک درخت اور چٹان کے ساتھ ایف سی کا جوان کھڑا کردیا جائے تب بھی پاکستان کا داخلی امن اور خطے کا استحکام اس وقت تک متاثر ہوتا رہے گا جب تک کہ غیر ملکی افواج افغانستان میں رہیں گی۔



.
تازہ ترین