کراچی(ٹی وی رپورٹ)خیبرپختونخوا کے چار سابق وزرائے اعلیٰ نے کہا ہے کہ چارسدہ دہشت گرد حملہ صوبائی حکومت کی کمزوری ہے۔چارسدہ میں حملے کی واضح اطلاع پرصوبائی حکومت کا ایکشن لینا ضروری تھا۔باچا خان یونیورسٹی میں تین دن قبل طالب علموں کو حملے کے خطرات سے آگاہ کردیا گیا تھا لیکن حکومت نے یونیورسٹی کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی۔انٹیلی جنس معلومات پر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا تو چارسدہ جیسے مزید واقعات ہوں گے۔باچا خان یونیورسٹی دہشتگردوں کیلئے سافٹ ٹارگٹ تھا۔ افغانستان کی موبائل سمیں پاکستان میں دہشتگردی، بھتہ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کیلئے استعمال ہورہی ہیں۔آفتاب احمد خان شیرپاؤ، اکرم خان درانی، پیر صابر شاہ اور امیر حیدر خان ہوتی نے ان خیالات کا اظہار جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میںمیزبان حامدمیر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ یاد رہے خیبرپختونخوا کے چاروں سابق وزرائے اعلیٰ پہلی دفعہ کیپٹل ٹاک میں اکٹھے شریک ہوئے تھے۔آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے حملوں کی اطلاعات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے چارسدہ میں حملے کی واضح اطلاع پر صوبائی حکومت کا ایکشن لینا ضروری تھا، دہشتگردی کیخلاف ایسی واضح اطلا عات ملنا بڑی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن نہیں ہوگا تو پاکستان میں بھی امن نہیں ہوگا، پاکستان اور افغانستان کوباہمی بداعتمادی ختم کرکے مل کر دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی، بنیادی پرستی پھیلنے کی وجہ معاشرے کی گھٹن بھی ہے، دہشت گردوں کے بیانیہ کا جوابی بیانیہ لانے کی ضرورت ہے۔اکرم خان درانی نے کہا کہ چارسدہ اور بنوں قبائلی علاقوں سے جڑے ہونے کی وجہ سے دہشتگرد حملوں کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں،چارسدہ دہشت گرد حملہ صوبائی حکومت کی کمزوری ہے، چارسدہ حملے کی نہایت واضح اطلاع صوبائی حکومت کو بھیجی گئی مگر اس کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، اسپیشل برانچ کی رپورٹوں کو اہمیت دی جائے تو دہشت گرد ی کے واقعات روکے جاسکتے ہیں،بطور وزیراعلیٰ اسپیشل برانچ کی ہر رپورٹ کو خود پڑھتا تھا، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی معلومات ہونے کے باوجود ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے، دہشتگردی کی وجہ سے پختو نو ں کی نسل در نسل تباہی ہوئی ہے، پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کے بغیر افغانستان میں مفاہمتی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا ہے،افغان مسئلہ کے حل کیلئے پوری دنیا پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے، جب بھی پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کیخلاف متفق ہوتے ہیں دونوں ممالک میں ایسے واقعا ت ہوتے ہیں جو بداعتمادی کی فضا دوبارہ پیدا کردیتے ہیں، پاکستان کے اندر افغانستان کی موبائل سموں کے استعمال کو روکنے کیض رور ت ہے۔پیر صابر شاہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت دہشت گردی کیخلاف کارروائی میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے، دہشتگردی کا جلد خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ایجنسیوں کی طرف سے دہشت گردوں کے نامو ں کے ساتھ چارسدہ حملہ کی پیشگی اطلاع اعلیٰ کارکر د گی کا ثبوت ہے، انٹیلی جنس معلومات پر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا تو اسی طرح کے واقعات ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ باچا خان یونیورسٹی دہشت گردوں کیلئے سافٹ ٹارگٹ تھا، یونیورسٹی کے گارڈز اگر دہشت گردوں کو نہیں روکتے تو نقصان کہیں زیادہ ہوتا،باچا خان یونیورسٹی ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں بڑی آسانی سے کارروائی کی جاسکتی ہے۔