سانحہ چارسدہ نے ایک بار پھر پوری قوم کو غم زدہ کر دیا ہے ۔ اس اندوہناک سانحے اوراس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے زیاں نے اے پی ایس واقعے کے زخم اور یادیں ایک بار پھر سے تازہ کر دی ہیں۔ دہشت گردوں کی طرف سے کی گئی اس بزدلانہ کارروائی پر ہر طرف سے بیانات اور مذمتی قراردادوں کا سلسلہ جاری ہے ۔واقعے کے بارے میں معلومات آنے کا سلسلہ بھی جاری ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا، کیسے ہوا ، کون لوگ اس میں ملوث تھے اور ان کو کہاں سے ہدایات مل رہی تھیں۔لیکن ایک چیز جو اس دفعہ قدرے مختلف ہے وہ اس واقعے پر مختلف اطراف اور خصوصاً سیاسی قوتوں کیطرف سے سامنے آنے والا ردعمل ہے۔ جہاں اے پی ایس سانحے نے پوری قوم اور قیادت کو متحد کر دیا تھا اورہر طرف سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی تھی وہاں چار سدہ کے واقعے پر نہ صرف مختلف آراء دیکھنے میں آ رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اگر کوئی اسے وفاقی حکومت اور وفاق کے چند وزرا کی ناکامی کہہ رہا ہے تو کہیں اسے صوبائی حکومت کی نااہلی کہا جا رہا ہے کہ جو انٹیلی جنس معلومات ملنے کے باوجود اور مقامات کی واضح نشاندہی کے باوجود بھی اس واقعے کو نہ روک سکی۔ کوئی اس واقعے پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہدف تنقید بنا کر اپنا ذہنی بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تو کسی کے نزدیک پوری کی پوری وفاقی حکومت ہی اس سانحے کی ذمہ دار ہے۔ کسی کے نزدیک نیشنل ایکشن پلان کی خامیاںاس واقعے کا موجب بنی ہیں تو بعض لوگوں کے نزدیک اس پلان پر عملدرآمد میں کوتاہیاں اس سانحے کا سبب بنی ہیں۔ جس حساب اور جس انداز میں نیشنل ایکشن پلان پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور اس میں خامیاں اور نقائص تلاش کیے جا رہے ہیں اس سے یہ گمان کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے کہ کیایہ وہی پلان ہے جس پر ملک کی تمام سیاسی قیادت متفق تھی۔ اس پلان پر اب تک جتنا بھی عملدرآمد ہوا ہے اور اس کے جو بھی نتائج سامنے آئے ہیں اس پر ہونے والی تنقید سے بھی یہ اندازہ کرنا مشکل محسوس ہو رہا ہے کہ تنقید کرنے والے اس امر سے آگاہ ہیں کہ یہ کسی ایک وزیر، وزارت، محکمے، ادارے یا حکومت کا پلان ہرگز نہیں تھا بلکہ اس پلان پر عملدرآمدکی ذمہ داری مختلف وزارتوں ، متعدد محکموں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی تھی۔ اگر کسی وجہ سے کسی بڑے سانحے کو نہیں روکا جا سکا تو یہ ان تمام لوگوں کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے جو اس پلان پر عملدرآمد کے پابند تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی مقصد کو پانے کیلئے ایک واضح، مربوط اور منظم لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ منزل کے حصول کیلئے نہ صرف مختلف شارٹ، میڈیم اور لانگ ٹرم اہداف مقرر کئے جاتے ہیں بلکہ مختلف اوقات پر ان مقرر کردہ اہداف پرپیش رفت کا جائزہ منزل کے حصول کو آسان بناتا ہے ۔ سابقہ پیش رفت اور نئی ضروریات و تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی طے شدہ لائحہ عمل میں ضروری ترامیم کی جاتی ہیں اور وقت کی ضروریات پر پورا اترا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگرچہ سالہا سال سے ہماری قوم انتہا پسندی و دہشت گردی کی عفریت کا شکار تھی اور اس عذاب پر قابو پانے کے لئے کوششیں کی جارہی تھیں لیکن اے پی ایس سانحہ کے بعد پہلی دفعہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے ایک واضح لائحہ عمل مرتب کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ہماری تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ پوری سیاسی قیادت نے اپنے باہمی اختلافات ایک طرف رکھ کر نہ صرف ملک کے امن و امان اور دہشت گردی کا باعث بننے والے حالات و واقعات کا جائزہ لیا بلکہ بیس نکات کی صورت میں واضح اہداف اور سمت کا تعین کیا۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پہلی دفعہ امن کی عمارت مضبوط بنیادوں پر کھڑی کرنے کے لئے اینٹ سے اینٹ جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ کہ یہ تمام چیزیں پہلے بھی تفصیلاً سامنے آ چکی ہیں لیکن ان کی یاد دہانی اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام عناصر کو جو اس پلان میں نقائص تلاش کر رہے ہیں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یہ پلان کسی ایک پارٹی یا سیاسی گروہ کے ذہن کی پیداوار نہیں تھا بلکہ اس میں تمام سیاسی قوتیں اور سوسائٹی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی سوچ شامل تھی اور اگربالفرض یہ پلان اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے تو یہ اقلیت کی نہیں بلکہ اکثریت کی سوچ کی ناکامی تصور کی جائیگی۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس پلان پر عملدرآمدکے نتیجے میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک بار دوبارہ سے اس پلان پر اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیںاس سے نہ صرف مختلف نکات پر پیش رفت کی یادد ہانی ہوگی بلکہ ایسے تمام نکات پر کہ جن پر پیش رفت قدرے سست روی کا شکار رہی ہے انکی وجوہات بھی سامنے آ جائیں گی۔ وزارتِ داخلہ سے حال ہی میں جاری شدہ اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اینٹ سے اینٹ جوڑ کر امن کی ایک مضبوط عمارت کی تکمیل اگرچہ ابھی ہونا باقی ہے مگر اس سلسلے میں کافی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ نیکٹا کی فعالی کے سلسلے میں عملی اقدامات کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ اگرچہ کہ نیکٹا جیسے ادارے کی مکمل فعالی کیلئے اربوں روپے درکار تھے لیکن اس سال اس ادارے کے لئے محض ایک ارب روپے کا اجراء ہو سکا۔ وزارتِ داخلہ نے اس سلسلے میں کیا کیا کوششیں کیں نہ تو یہ امر کسی سے پوشیدہ ہے اور نہ ہی وزارتِ خزانہ کی مالی مجبوریاں۔ ان سب حالات کے تناظر میں ایک ارب روپے کا اجراء بھی ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ ایک ادارے یا پروجیکٹ کے لئے مالی وسائل کا باقاعدہ اجراء ہونا اس کے عملی وجود کی گواہی دیتاہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خیالات، کاغذات اور فائلوں کی منزلوں سے نکل کر ٹھوس تشخص اختیار کرنے کی منزل کی طرف گامزن ہو چکا ہے۔ جہاں تک نیکٹا کی فعالی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں جو وضاحت سامنے آئی وہ کافی حد تک منطقی ہے کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی صورت میں کہاں سے اس ادارے کو فعال کیا جاتا۔ بہرحال چونکہ اب ایک آغاز ہو چکا ہے تو قوی امید ہے کہ یہ ادارہ جلد اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے تگ و دو کے قابل ہو جائے گا۔ اعداو شمار میں بتایا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نہ صرف ملٹری کورٹس کا قیام مکمل کیا گیا بلکہ یہ عدالتیں اپنا کام سر انجام دے رہی ہیں اور اب تک ڈیڑھ سوکے قریب کیسز ان عدالتوں کو بھیجے جا چکے ہیں ۔ نفرت انگیز تقاریر کرنے اور مواد پھیلانے کے سلسلے میں2300 سے ز ائد کیسز کا اندراج کیا جا چکا ہے اور 2100 سے زائد گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں2300 کیسز کے اندراج کے ساتھ ساتھ جو مواد اور آلات ضبط کئے گئے ہیں ان کی تعداد بھی لگ بھگ اتنی ہی ہے۔ مختلف تنظیموں پر پابندی لگانے کا جہاں تک تعلق ہے تو ملکی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا کہ نہ صرف 61تنظیموں کی ایک لسٹ مرتب کی گئی بلکہ8000 سے زائد افراد کے ناموںکو بھی فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا اور انکی آمدو رفت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ پابندی لگائی گئی ۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسی تنظیموں سے وابستہ افراد کے میڈیا پر آنے اور انتہاپسندانہ نظریات کا پرچار کرنے پر بھی قدغن لگائی گئی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ موبائل فون ٹیکنالوجی میں پاکستان نے بہت ترقی کی ہے لیکن اسی ٹیکنالوجی اور سہولت کا دہشت گردوں نے بھی بے انتہا فائدہ اٹھایا۔ اس بات کا کریڈٹ بھی بلاشبہ نیشنل ایکشن پلان اور وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان کو جاتا ہے کہ ریکارڈ مدت میں نو کروڑ موبائل سموں کی بائیومیٹرک تصدیق کا عمل مکمل کیا گیا۔ امن و امان کے قیام میں جو کوششیں کراچی میں قیام امن کے لئے کی گئی ہیں وہ نہ تو کسی سے پوشیدہ ہیں اور نہ ہی انکے نتائج کسی سے مخفی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حالیہ دنوں میں کس طرح اور کس جانب سے کراچی میں امن قائم کرنے والوں کے کردار کو متنازع بنانے کی کوششیں کی گئی۔ گذشتہ ماہ وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شما ر کے مطابق کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔ اگر ٹارگٹ کلنگ میں 53فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے تو دہشت گردی کے واقعات80فیصد کم ہوئے ہیں۔ چوری چکاری تیس فیصد کم ہوئی ہے تو بھتہ خوری میں چھپن فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ الغرض ملک کے اقتصادی حب میں جرائم کی شرح میںخاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔جہاں تک بلوچستان میں مفاہمت کا تعلق ہے تواس میں ابھی تک کوئی بڑا اعلان نہیں کیا گیا اور محض اتنا ہی بتانے پر اکتفا گیا کہ ناراض بلوچوں کو منانے اور ان کو قومی دھارے میں لانے کا کام جاری ہے اور مثبت سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ جو اعدادو شمار جاری کئے گئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور انکی آباد کاری کا کام جاری ہے۔بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے مالی وسائل کا خاتمہ کرنے اور حوالہ ہنڈی کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے حوالے سے بھی کام جاری ہے اور صوبائی سطح پر کائونٹر ٹیریزازم ڈپارٹمنٹس میں کائونٹر ٹیرر فائنانسنگ یونٹس کا قیام بھی نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہی عمل میں لایا جا رہا ہے۔ جہاں تک مدرسوں کا تعلق ہے تو علماء کرام اور حکومت کا مدارس رجسٹریشن فارمز پر متفق ہونا یقیناً ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ یہ مسئلہ ایک عرصہ سے حل طلب تھا۔بتایا گیا کہ اسلام آباد اور پنجاب میں سو فیصد میپنگ کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ یہ سندھ میں اسی فیصد، خیبر پختونخوا میں پچہتر فیصد اور بلوچستان میں ساٹھ فیصد تک ہو سکا ہے۔ فاٹا ریفارمز، افغانیوں کی افغانستان واپسی ، عدالتی نظام میں اصلاحات چند ایسے نکات ہیں جن میں نہ صرف صوبائی حکومتوں کا اہم کردار ہے بلکہ افغانیوں کے واپسی جیسے نکتہ پر دو تین وزارتوں کے علاوہ ایک غیر ملکی حکومت بھی شامل ہے۔ الغرض اب تک جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں انکی نفی کرنے کی بجائے انکو اپنی طاقت بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بات نیشنل ایکشن پلان کے قابل عمل ہونے یا نہ ہونے کی ہے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نیشنل ایکشن پلان کوئی آسمان سے اترا ہوا لائحہ عمل نہیں بلکہ ہم سب کی مشترکہ سوچ کی پیداوار ہے ۔ یقیناً اس پلان میں مزیدبہتری کی گنجائش موجودہے اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس پر عملدرآمد میںابھی بہت کافی گنجائش باقی ہے ۔یہ بات درست ہے کہ بیس نکات کے اس پلان میں نہ تو مختلف نکات پر پیش رفت کی رفتاریکساں رہی ہے اور نہ ہی ملک کے مختلف حصوں میں اس پلان پر عملدرآمد میں یکسانیت دیکھنے میں آئی لیکن اگر انصاف کی آنکھ سے معاملات پرنظر ڈالیں تو ایک ایسے پلان جس میں مختلف صوبائی حکومتیں، متعدد محکمے، وزارتیں اور دیگر ادارے شامل ہوں اور جس کے مختلف نکات پر عمل درآمدمختلف وزارتوں اور محکموں کے ساتھ ساتھ مختلف صوبائی حکومتوں کو بھی ذمہ داری ہو وہاں شاید یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ ہر نکتے پر پیش رفت کی رفتار یکساں اور برابر ہو ۔ لیکن اس تمام باتوں سے قطع نظر ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کر نا چاہیے کہ نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں حالات بہتر ہوئے ہیں۔حالات کتنے بہتر ہوئے اور کتنے اور بہتر ہوسکتے تھے اس پر یقینا ً بحث ہو سکتی ہے لیکن کسی بھی واقعے کی نتیجے میں ماضی کی کامیابیوں کو یکسر نظر انداز اور فراموش کر دینا اورایک ایسے لائحہ عمل پر جو قوم کے وسیع تر اتفاق رائے کی عملی مظہر ہو اس کی افادیت پرسوال اٹھانا کچھ مناسب نہیں ۔