• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کا سنگین ہوتا ہوا بحران۔حکومت کو ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے

وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ دسمبر2009ء کے بعد بجلی کا یہ بحران ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے۔ سینٹ میں سینیٹرپری گل آغا اور دیگر اراکین کے نقطہ اعتراض کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں 9 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ ایک طرف وزیر پانی و بجلی کی طرف سے 2009ء کے بعد بجلی کا حالیہ بحران ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے تو دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ تیل کی قلت اور ڈیموں میں پانی کی کمی کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے والی 11 کمپنیوں نے پیداوار بند کر دی ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی کی طلب ساڑھے دس ہزار میگاواٹ ہے جبکہ پیداوار صرف ساڑھے چار ہزار میگاواٹ رہ گئی ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی 6 کمپنیوں کا کہنا ہے کہ واپڈا 4 سو ارب روپے کا نادہندہ ہے ان کمپنیوں نے ادائیگی نہ ہونے پر مزید تیل کی فراہمی بھی روک دی ہے جس سے دیہی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ سابقہ دور میں بجلی پیدا کرنے کے شروع کئے گئے ملٹی فیول کے 62 میں سے ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں کیا جا سکا تاہم توقع ہے کہ رواں سال 2009ء مارچ تک 615 میگاواٹ کے تین منصوبے مکمل ہو جائیں گے اس کے بعد بھی بجلی کی کمی ساڑھے پانچ ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہو گی۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی نے ملک کو بجلی کے بحران سے مکمل نجات دلانے کے لئے جس طویل مدت کا ذکر کیا ہے اس کے پیش نظر تو یہی کہا جاسکتا ہے
جانے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
وزیرپانی و بجلی کے اس موقف سے عوام کو تسلی کی بجائے سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ طویل مدت انتظار کی نوید ان کی توقعات اور امیدوں پر پانی پھیر دے گی اور موجودہ حکومت سے وابستہ ان کی توقعات بھی دم توڑ جائیں گی۔ وزیر پانی و بجلی کا یہ موقف موجودہ حکومت کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران اور اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو ان کے مسائل کے حل کے لئے کرائی جانے والی یقین دہانیوں سے مطابقت نہیں رکھتا حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران ملک کو درپیش اس بحران کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لیں ۔ اس کے اسباب کا ازالہ کرنے اور ذمہ داروں کے احتساب کے لئے نتیجہ خیز اقدامات میں تاخیر نہ کریں۔ واپڈا کو بھی اس صورت حال سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ بجلی کا ضیاع اور بجلی چوری میں واپڈا کے بدعنوان اہلکاروں اور افسروں کے علاوہ صارفین کو غلط بلوں کی ترسیل کے ذمہ داروں کا کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ 4سو ارب روپے کی نادہندگی کے باعث تیل کی فراہمی کے تعطل کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت کا صرف یہ کہنا اور تسلسل کے ساتھ اس کا اعادہ کرتے رہنا کہ توانائی کا بحران اسے ورثے میں ملا ہے ،مسئلے کا حل نہیں ہے اور نہ ہی عوام حکومت کے اس جواب سے مطمئن ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کی طرف سے بجلی کی تقسیم کے نظام کو بھی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے لیکن اس ساری صورتحال کے ذمہ داروں اور بدعنوان عناصر کے موثر احتساب کی اب تک نوبت نہیں آسکی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقتدار سنبھالنے سے پہلے حکمرانوں کو اس بحران کا علم نہیں تھا؟ کیا انہوں نے اس سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی؟ کیا ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس بحران میں کوئی کمی آئی؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ بحران تو مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور غیراعلانیہ اور اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافے نے عوام کے معمولات زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومت بجلی کے نرخوں میں اضافے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس بحران نے پوری قومی معیشت کو بھی متزلزل کر کے رکھ دیا ہے۔ ملک میں ہزاروں کارخانے، فیکٹریاں اور صنعتی ادارے بند ہونے سے لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہو گئے ہیں ۔جس سے ان کی معاشی مشکلات کے باعث ان کے لئے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔ غربت و افلاس اور بیروزگاری سے تنگ آئے ہوئے افراد خودکشیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ صنعتی پیداوار میں غیر معمولی کمی کے باعث برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل ممکن نہیں رہی جس سے بیرونی منڈیاں پاکستان کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہیں اس سے نہ صرف زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے بلکہ تجارتی خسارے میں جو پہلے ہی 20 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا تھااس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ زرمبادلہ کی قلت حکومت کے لئے قرضوں کی ادائیگی میں بھی مشکلات پیدا کرے گی اور وہ عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری شرح سود پر مزید قرضے لینے پر مجبور ہو گی۔ اس بحران نے زرعی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ زرعی ٹیوب ویل بند ہونے سے فصلوں کو بروقت پانی کی فراہمی ممکن نہیں رہی اس طرح زرعی پیداوار میں کمی سے ملک ایک نئے بحران کا شکار ہو تا جا رہا ہے۔ اگر رسد و طلب کے حوالے سے ملکی ضروریات کے مطابق گندم اور دوسری اجناس کی پیداوار ممکن نہ ہو سکی تو ان کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا ہو گا اور یہ صورتحال گرانی میں کمر توڑ اضافہ کر کے عوام کو اذیت ناک صورت حال سے دوچار کردے گی۔ ہم یہ بات بار بار کہتے آ رہے ہیں کہ صورت حال کی سنگینی کا ازالہ محض یہ کہہ دینے سے ممکن نہیں ہو گا کہ حکومت کو یہ بحران ورثے میں ملا ہے جبکہ خود موجودہ حکومت بھی تو بڑی حد تک سابقہ حکومت کی پالیسی پر ہی کاربند ہے۔ دراصل یہ صورت حال کسی ایک حکومت کی غلط پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا مسلسل عمل ہے جس کی ماضی کی کم و بیش تمام حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے مستقبل میں ملک کی توانائی کی کھپت، آبادی میں ہونے والے اضافے کے حوالے سے صارفین اور ملک کی صنعتی ترقی کے لئے صنعتی اداروں کی ضروریات کو اگر پیش نظر رکھا ہوتا تو ملک کو آج اس بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ملکی ضروریات کو نظر انداز کرنے کے عمل میں تسلسل کے باعث اس قسم کے بحران ہر حکومت کو ورثے میں ملتے رہے ہیں اگر ماضی کی کسی ایک حکومت نے ملک کے لئے توانائی کے وسائل و ذرائع کی ضرورت و اہمیت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے بعد وسیع تر قومی و ملکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کی ہوتی اور ان مفادات سے ہم آہنگ لائحہ عمل وضع کر کے اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا ہوتا تو ملک کو آج اس بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نہ قومی معیشت کو اس طرح کے سنگین خطرات لاحق ہوتے اور نہ ہی ملک کو اپنی ضروریات کے لئے کشکول لے کر عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے اور نہ ہی بھاری شرح سود پر ان سے قرضے لینے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت کو نہ صرف بجلی کے بحران بلکہ دوسرے بحرانوں کو بھی سابقہ حکومت کے کھاتے میں ڈالنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس صورتحال پر قابو پانے اور ایک موٴثر پالیسی وضع کرنے کے لئے ماہرین کو بلا کر ان سے مشاورت کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اس وقت ملک میں موسم سرما کے باعث بجلی کے استعمال میں موسم گرما کی نسبت خاصی کمی پائی جاتی ہے کیونکہ موسم سرما میں بجلی کا استعمال کم اور گیس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ اگر موسم سرما میں ملک میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے تو موسم گرما میں صورت حال کس قدر سنگین اور اذیت ناک ہو گی اس کے تصور سے ہی انسان کانپ اٹھتا ہے۔ اس وقت کی صورت حال کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ موسم گرما میں نہ صرف گھریلو صارفین کی مشکلات میں اضافہ ہو گا بلکہ قومی معیشت پر بھی مزید ناخوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اس لئے حکومت کو بلاتاخیر اس مسئلے کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لے کر اسے حل کرنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دینا ہو گا اس کا رسمی اور وقتی حل تلاش کرنا نہ عوام اور نہ حکومت کے مفاد میں ہو گا۔
تازہ ترین