• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نامکمل مگر مضبوط فیصلہ… فکرِفردا…راجہ اکبردادخان

پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو سامنے آئے چند گھنٹے ہی گزرے ہیں اور اس کی مزید تفصیلات سامنے آرہی ہیں فیصلے میں جن معاملات پر جج حضرات نے جو پوزیشن لی ہے اس سے بہتر عدالتی پوزیشن لینا ممکن نہ تھا۔ فریقین کی خواہشات اپنی جگہ مگر تجارتی پس منظر کے اس سیاسی معاملے پر کسی تحقیقاتی مواد کے بغیر جو کچھ کہ دیا گیا ہے اسے درخواست گزاروں کی وقتی تسلی کیلئے کافی ہونا چاہئے۔ پی ٹی آئی کی درخواست کی پانچوں گزارشات کو تسلیم کرتے ہوئے عدالت ان کی درخواست کو Substantialسمجھتے ہوئے یہ کہہ رہی ہے کہ وہ اس درخواست میں ان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو بڑی حد تک مانتی ہے اگرچہ کلی طورپر نہیں۔ دو محترم جج صاحبان نااہلی کو تسلیم کرتے ہیں اگرچہ پی ٹی آئی اس سارے معاملے کو سپریم کورٹ پہنچا کر اپنی سوچ کے مطابق ایک سیاسی اور اخلاقی فتح حاصل کرچکی تھی اس فیصلے کو پاکستانی عدالتی تاریخ میں ایک بڑا فیصلہ کہنا چاہئے جس میں وزیرا عظم وقت اور ان کے خاندان کو اپنے معاملات بڑی حد تک دنیا بھرکے سامنے کھولنا پڑے۔ حکومتوں کے خلاف اعلیٰ ترین عدالتیں بھی اس طرح کے بڑے فیصلے کرنے سے کتراتی رہی ہیں یہاں بھی پاکستان کا ایک بڑا طاقتور طبقہ ایک مضبوط وزیراعظم کو کلین چٹ ملنے کی توقع کر رہا تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور تحقیقات جاری ہیں۔ایک بہتر پاکستان کی طرف یہ ایک اہم سوچ ہے نیب اور ایف آئی اے سے کچھ زیادہ توقع کسی کو بھی نہیںمگرجے آئی ٹی میں شامل دیگر ایجنسیوں سے اچھے اور مستعد کام کی توقع ہے کیونکہ اس سارے معاملے کو دوماہ میں مکمل کرنے کا حکم ہے۔ تمام متعلقین بالخصوص سپریم کورٹ اس کام کو ازخود دیکھتے ہوئے مکمل کروانے میں دلچسپی لیتے رہیں گے۔ یہاں عدالت عظمیٰ کے اپنی ریپوٹیشن کے معاملات بھی ہیں، اس میں بھی زیادہ شک نہیں ہوسکتا کہ فیصلہ کے آخری مرحلہ پر پہنچنے کے لئے جج صاحبان کو کچھ زیادہ مواد کی ضرورت بھی نہیں، کیونکہ بہت سامواد ان کے پاس پہلے سے موجود ہے تحقیقات کا دروازہ کھول کر عدالت نے وزیراعظم محترم کے خاندان کو ایک مزید موقع فراہم کیا ہے جس میں وہ تمام کچھ ثابت کرسکتے ہیں جو اس سے پہلے نہیں کرسکے ہیں۔ تحقیقات کے نتیجہ میںنئے میٹریل کی شہادت کے حوالے سے کیا حیثیت ہوگی اور کیا اس کے لئے نئے بینچ کو نئی سماعت کرنا ہوگی یہ ایک اہم قانونی نقطہ ہے۔ دوسری طرف یقینی طورپر نئے بیانات جو جے آئی ٹی کی شکل میں سامنے آئیں گے پر بحث ہونا ایک قانونی ضرورت ہوگی یا سماعت کی بجائے اس رپورٹ پر فریقین سے تحریری تبصرے مانگ لیئے جائیں گے۔ جن کی بنیاد پر جج صاحبان اپنا حتمی فیصلہ صادر فرمادیں گے سماعت کے دوران تمام فریقین کے اختیار کئے گئے موقف کئی کے لئے مسائل پیدا کرتے رہیں گے اور نئی منی ٹریلز تیار کرنی اور جے آئی ٹی کو باور کرانا مشکل ہوں گی پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی جس وائٹ واش کے خوف سے اس کمیشن کی کھلے عام مخالفت کررہی ہیں وہ قابل فہم ہے عمران خان تو کسی کمیشن کو بہت پہلے مسترد کرچکے ہیں۔ چار سال بعد پیپلزپارٹی کو مفاہمت کی پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے کیونکہ ان کے کارکن ان سے بہت تعداد میں دور ہوچکے ہیں جو ساتھ ہیں انہیں مطمئن کرنے کے لئے انہیں کچھ نہ کچھ اینٹی (ن) پوزیشن اختیار کرناپڑرہی ہے۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کیلئے سنجیدہ سوچ وبچار کا معاملہ ہے کیونکہ شریف خاندان کے کئی لوگ جو ان جماعتوں کی زد میں ہیں کے متعلق تاحال مکمل فیصلہ نہیں آیا، لیکن جس حد تک فیصلہ آیا ہے اس کو کس بہترین سوچ سے سنبھالا جائے اور کیا اپروچ اختیار کی جائے جس سے Impronementہوسکے۔ ایسے حوالوں سے ان جماعتوں کے قائدین کیلئے جلد اہم فیصلے کرنے ضروری ہیں۔ جتنا بھی نقصان ہوا ہے وہ حکومت کا ہی ہوا ہے تاہم وزیراعظم کو دودھ کا دودھ کا پانی کا پانی کردینے کا ایک اور موقع فراہم ہوا ہے۔پانامالیکس کے حوالہ سے تو یہ بہت پہلے سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ وہ تمام اداروں کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار ہیں تاہم پہلا موقع ہے کہ ایک وزیراعظم اور ان کے خاندان کے افراد کو ایک جے آئیٹی کمیشن میں اپنے مالی معاملات کی تفاصیل شیئر کرنے کا کہا گیا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے اردگردوکلا اور مشیروں کی بڑی تعداد موجود ہے کیا ان کے خاندان کو اس جے آئی ٹی سے تعاون کرنا چاہئے؟ ۔ اگر وہ تعاون کرتے ہیں تو کئی نئے پنڈورا باکسز بھی کھل سکتے ہیں اور اگر جو کچھ کہہ دیا گیا ہے میں اضافے نہیں کئے جاتے تو اس سے کم از کم عدالت کیلئے کسی معاملات پر کسی حتمی فیصلے پہ پہنچنا مشکل ہوگا۔ جے آئیٹی ایک دو دھاری تلوار ہے ایک اور آپشن وزیرعظم محترم کے خاندان کیلئے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ Cut your Losses and runحکومت کو کلین چٹ نہیں مگر وہ زیادہ متاثر بھی نہیں ہوئی، انتخابات کی طرف جلد بڑھ جانا بھی ایک معقول آپشن ہوسکتا ہے دوسری دونوں بڑی جماعتیں بھی ایک دوسرے کے قریب نہیں۔ پنجاب میں کلی طورپر اور کے پی میں درمیانہ درجہ تک حکومتیجماعت مضبوط ہے۔ کچھ درخواست گزار پہلے سے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ فیصلہ کو قبول کرینگےمگر ان حالات میں جبکہ وزیر اعظم محترم کے ذاتی حوالے سے کئی سوالات اٹھ چکے ہیں ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ ایسا ہورہا ہے کیونکہ یہ جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وزیراعظم کی موجودگی میں جے آئی ٹی ایک غیر جانبدار تحقیقات نہیں کرسکتی۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کو ہینڈل کرنے میں اعلی ترین ذہانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس کا مشاہدہ اس طرح ہورہا ہے کہ بیشتر فریقین اس وقت تک کے نتائج سے بڑی حد تک مطمئن نظر آتےہیں۔کیا ہونےجارہا ہے؟ جس طرح ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ اللہ کرے جو بھی فیصلہ آئے پاکستان کیلئے بہتر ہو۔ یقینا فیصلہ کے جو حصے اس وقت تک سامنے آئے ہیں اور اگر خلاف توقع عدالتی احکامات پہ ایک بہتر پاکستان کی خاطر دیانتدار طریقہ سے عمل ہوجائے، تو آج 20اپریل 2017سے سیاسی طورپہ بہت حدتک کرپشن سے صاف اور بڑی حد تک ایک ایسے پاکستان کا سفر شروع ہوجائے گا جس میں ملکی قوانین کا ہاتھ معاشی اور سیاسی طورپر مضبوط ترین لوگوں تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔ یہ ایک طویل سفر ہوگا جس میں جب اشرافیہ کے مائنڈ سیٹ ملکی قوانین کے احترام میں بدلنے شروع ہوجائیں گے تو ایسے رویوں کے ثمرات عوام الناس تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اللہ ہم سب حامی وناصر رہے۔



.
تازہ ترین