روزنامہ جنگ کے کالم نگار محترم جی این مغل نے 8 جنوری 2016 کی اشاعت میں مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کی وضاحت بھی کی ہے کہ ’’ کیا کیجئے جب کوئی سول ادارہ آئین کی خلاف ورزی کا نوٹس نہیں لے گا تو کیا اس حالت میں لوگوں کی نظریں فوج کی طرف نہیں اٹھیں گی؟ انہوں نے یہ بھی لکھاکہ سول معاملات میں فوج کی مداخلت کا قائل نہیں لیکن کراچی میں خانہ شماری کو ایک تنظیم نے ہائی جیک کیا تو مردم شماری کمشنر نے اس خانہ شماری کو بوگس قرار دے کر کینسل کیا۔
دراصل یہی مسئلہ سرائیکی وسیب کا ہے ، مردم شماری کے مسئلے پر سرائیکی وسیب میں بھی سخت تشویش پائی جاتی ہے خصوصاً موجودہ حکومت کی نگرانی میں جس کے سرائیکی مخالف نظریات ڈھکے چھپے نہیں، سرائیکی وسیب کے لوگوں کا بھی مطالبہ شفاف مردم شماری ہے۔ گزشتہ مردم شماری فارم میں سرائیکی زبان کا خانہ نہیں رکھا گیا تھا جس پر وسیب میں سخت احتجاج ہوا اور اس سلسلے میں سابق وزیر خزانہ مخدوم شہاب الدین کی توجہ مبذول کرائی تو انہوں نے صرف چند اضلاع کیلئے سرائیکی خانے والے اضافی فارم چھپوا کر بھجوائے جو کہ مردم شماری کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ سرائیکی بولنے والوں کے ساتھ نا انصافی اور امتیازی سلوک بھی تھا، ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ موجودہ مردم شماری میں کیا صورت حال ہے؟ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے وضاحت آنی چاہئے۔
پاکستان میں پہلی آدم شماری 1951ء میں ، دوسری 1961ء ء میں ، تیسری 1972 ء میں ، چوتھی 1981ء میں ، پانچویں 1998 ء میں ہوئی ۔یہ مردم شماری 1991 ء میں ہونا تھی مگر تاخیر کا شکار ہوئی ۔ 1998 ء سے اب تک سترہ برس میں جو نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس کا درست اندازہ کرنے کی واحد صورت مردم شماری کا شفاف عمل ہے، اسی عمل کے ذریعے وسائل کی تقسیم اور نئی حلقہ بندیاں عمل میں لائی جا سکتی ہیں، اس کیلئے حقیقت پسندی دیانتداری اور شفافیت پہلی شرط ہے، گزشتہ مردم شماریوں میں اردو، سندھی اعداد و شمار کا تنازع ابھر کر سامنے آیا ۔ سندھ کے شہروں میں اردو بیورو کریسی نے ان کو بھی اردو لکھا جن کی مادری زبان اردو نہ تھی اور سندھیوں نے دریائوں کے میر ملاحوں کی کشتیوں کو ’’ خانہ شمار ‘‘ کیا۔ اسی طرح 1998 ء کی مردم شماری میں سرائیکی کا خانہ ہی نہ رکھا گیا جس کے باعث شفافیت قائم نہ رہ سکی۔ آدم شماری جہاں آئینی تقاضا ہے وہاں آئینی اور قانونی طور پر ہر شخص اس بات کا پابند ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولے ، غلط بیانی نہ کرے اور درست کوائف آدم شماری فارم میں درج کرائے۔ اب اگر میری مادری زبان سرائیکی ہے اور میں خود کو پنجابی، سندھی یا براہوی لکھوائوں تو یہ جھوٹ ہوگا اور آئین کی خلاف ورزی ہوگی اور اگر کوئی اہلکار مجھے زبردستی اردو یا پنجابی لکھ دے تو وہ بھی مجرم ہے اس اہلکار کی جوابدہی ہونی چاہئے اور قانون کے تحت اسے بھی سزا ملنی چاہئے۔ مردم شماری کے بارے میں ایک تاریخی حوالہ یہ بھی ہے کہ عالمی شہرت یافتہ دانشور رابرٹ تھامس مالتھس نے 1798 ء میں آبادی پر جو مقالہ لکھا تھا ، اس میں کہا تھا خوراک روزگار اور وسائل کے اضافے کے اقدامات ہونے چاہئیں کہ غربت نا گزیر ہے ، کیوں کہ آبادی سلسلہ ہندسہ (8-4-2) کی شرح سے بڑھتی ہے اور معاشی سلسلے بحساب (4-3-2) سے مزید یہ کہ اگر قدرتی آفات جیسے زلزلہ ، قحط ، وبائیں یا جنگ اور رضا کارانہ ضبطِ تولید نہ ہو تو ایک ملک کی آبادی پچیس سال میں دگنی ہو جاتی ہے۔ کافی عرصے تک ان کے نظریات کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ، لیکن دو سو سال بعد اس کی حقیقت واضح ہو گئی۔ خود اپنے بقیہ پاکستان کو دیکھ لیجیے۔ 1951ء میں اس کی آبادی 33 ملین تھی۔ جو اکیس سال بعد 1972 ء میں 65 ملین سے بڑھ گئی یا 1961 ء میں 43 ملین تھی۔ جو بیس سال بعد 1981ء میں 84 ملین ہو گئی۔ اس وقت کے اکنامک سروے 2007-08ء کے مطابق آبادی 160.9 ملین اور عالمی بینک ، آئی ایم ایف کے لحاظ سے 164.09 ملین ہے۔ سرائیکی اور سندھی میںآدم شماری اور اردو میں مردم شماری کہا جاتاہے ، لیکن یہ عمل صرف انسانوںکو گننے کے لئے نہیں بلکہ اس میں خانہ شماری سے لیکر مسجد ، مندر ، تعلیم، صحت ، زبان ، کنبہ، قبیلہ سب کچھ گنتی میں آجاتا ہے اور یہ بات بھی گنتی میں آجاتی ہے کون سے علاقے ترقی و پسماندگی میںکس مقام پر ہیں۔
ہر دس سال بعد آدم شماری ضروری ہے۔ آدم شماری نہ کرانے کی سابقہ وموجودہ حکومتیں ذمہ دار ہیں ۔ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ دکھ اس بات کا بھی ہے جس عدلیہ کی بحالی کیلئے قوم نے قربانیاں دیں وہ بھی خاموش ہے ۔ آدم شماری نہ صرف معیشت کی جان ہے بلکہ سیاست ، تجارت، صحت ، تعلیم بلکہ وہ تمام شعبے جن کا تعلق انسانی زندگی سے ہے آدم شماری کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ، آدم شماری کا رواج صدیوں پرانا ہے ۔عہد نبوی ؐمیں سرکار دو عالمؐ کے ارشاد پر دو مرتبہ مسلمانوں کو گنا گیا اور حضرت عمرؓ نے تو آدم شماری کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ موجودہ دور میں انگریزوںنے اپنے ملک اور اپنے مقبوضہ علاقوں میں اسے بڑی باقاعدگی سے نہ صرف نافذ کیا ، بلکہ شماریات کو اپنی انتظامیہ کا ایک بنیادی جزو بنایا، انگلشیہ دور میں ہر دس سال کے بعد آدم شماری ہوا کرتی تھی ۔1998ء کی آدم شماری میںملک کو چار صوبوں ، ایک وفاقی دار الحکومت ، ایک فاٹا، 112اضلاع، 432 تحصیلوں اور 48,349 مواضعات ، دیہی یا گائوں میں تقسیم کیا گیا تھا ملک کی آبادی 132.4 ملین تھی۔ اس میں 68.9 ملین مرد اور 63.5 ملین خواتین تھیں۔ شہری آبادی 33 فیصد اور دیہی آبادی 67 فیصد تھی۔ اس مردم شماری میں سب سے زیادہ شکایت سرائیکی وسیب کو رہی کہ اس میں سرائیکی کا خانہ ہی نہ رکھا گیا۔مردم شماری کے سلسلے میں بار بار التواء کی جو وجوہات بیان کی جاتی رہی ہیں ان میں شفافیت کے اقدامات ، شہروں اور قصبوں کی نئے سرے سے رجسٹریشن ، غیر ملکیوں خصوصاً افغان مہاجرین سے جعلی شناختی کارڈوں کی واپسی ، مردم شماری کے دائرے کو وسیع کر کے معاشی، معاشرتی، تہذیبی و ثقافتی معلومات کا حصول ، بوگس شناختی کارڈوں کی منسوخی ، فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں یورش اور دہشت گردانہ سر گرمیوں کی باتیں شامل تھیں ۔ ایک ایسا آئینی تقاضا جس کیلئے ایک دن کی بھی تاخیر نہیںہونی چاہئے تھی،کو سترہ برس بیت گئے اب حالات بھی درست ہیں حکومت بلا تاخیر آدم شماری کا عمل شروع کرے کہ پوری دنیا میں درست اعداد و شمار کے بغیر مملکت کا نظام چلانا اندھیرے میں گاڑی چلانے کی مانند سمجھا جاتا ہے۔