• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چارسدہ حملے کےسہولت کاروں کی گرفتاریاں قابل ستائش ہیں،تجزیہ کار

کراچی(ٹی وی رپورٹ)چارسدہ میں باچاخان نیورسٹی پر دہشت گردانہ حملے کے سہولت کاروں کی مختصروقت میں گرفتاریوں پر سیکورٹی ادارے شاباش کی مستحق ہیں ۔دہشت گردی ایک بین الاقوامی چیلنج ہے اورصرف پاکستان کے اندرکارروائیوں سے دہشتگردی کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں کیا جاسکتا ۔ان خیالات کا اظہارسینئر تجزیہ کا ر اورصحافیوں حامد میر اورسلیم صافی نے ہفتہ کو ڈی جی آئی ایس پی آرکی جانب سے باچاخان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے سے متعلق بریفنگ کے بعداپنا اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کیا ہے۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘کے اینکرحامد میرنے اس سوال کے جو اب میں کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی آپریشن کیا گیا، گرفتاریاں کی گئیں، یہ کتنی اہم ہیں؟کے جواب میں کہا کہ یہ بڑی اہم بات ہے اور اس پر ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں شابا ش کی مستحق ہیںکہ انہوں نے اتنے مختصر وقت میں کم از کم جو سہولت کار ہیں ان کو گرفتار کرلیا ہے، اب ایک سہو لت کار باقی ہے۔ پوری ٹریل انہوں نے بتادی ہے کہ کس طریقے سے آئے تھے ،پاکستان کے اندر داخل ہوئے تھے اور کیسے انہوں نے با چا خان یونیورسٹی میں پہنچ کر اپنی دہشتگردی کی کارروائی کی اور اس سے پہلے بھی جو سیکورٹی ایجنسزہیں،خیبرپختونخواحکومت کو بتا رہی تھیں، مخصوص معلومات دے رہی تھیں، باقاعدہ عمر منصور گروپ کا نام بتا رہی تھیں اور جو بندے بھرتی کئے ہوئے تھے ان کے نام بتائے اور جو ابھی سہولت کاروں کو گرفتار کیا اس سے ایسا لگتا ہے جو سیکورٹی ایجنسیز انہوں نے پہلے بھی اچھا کام کیا تھا اب بھی اچھا کام کیا ہے لیکن اگررابطہ کاری کا عمل بہتر ہوتا صوبائی اور وفاقی حکومت اورسیکورٹی ایجنسیز ان میں رابطہ کاری کا عمل اچھا ہوتا تو شاید با چا خان یونیورسٹی پر حملہ روکا جاسکتا تھا۔سلیم صحافی کا کہنا تھا کہ پوچھے گئے سوال کے بارے میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ بات ان کی ٹھیک ہے کہ دہشت گردی وہ مسئلہ ہے کہ جس کوصرف پاکستان کی سطح پر مکمل طور پر ختم اس لئے نہیں کیا جاتا کہ افغانستان کے حالات اگر خراب رہتے ہیں تو افغانستان کے ساتھ جو ہمارا بارڈر ہے اس میںبنیادی جو داخلی راستے ہیں اس پر روزانہ تیس سے چالیس ہزار لوگ بغیر چیکنگ کےآ جا رہے ہیں ۔ مثلاء یہ لوگ بھی کسی پہاڑی راستے سے نہیں آئے تھے بلکہ طورخم کے راستے سے عام مسافروں کی حیثیت سے آئے تھے تو اگر افغانستان کے حالات پوری طرح نہیں سنبھالے جاتے اور سرحدی انتظامیہ الرٹ نہیں ہو جاتی تو صرف پاکستان کے اندر کارروائیوں سے میں نہیں سمجھتا کہ یہ مسئلہ پوری طرح حل کیا جا سکتا ہے یا دہشت گردی کا مسئلہ مکمل ختم کیا جا سکتا ہے ،چاہئےبین الاقوامی سطح پر ہو یا علاقائی سطح پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ کے بعدحامد میر کا اپنے تجزیے میں مزید کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں تفصیلات بتائی ہیں وہ تو بہت حوصلہ افزا ہیں اور تسلی بخش بھی ہیں لیکن یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ پہلے بھی وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے صوبائی حکومت کو بار بار بتا یا جارہا تھا اور 2016کے پہلے 3ہفتوں میں 17بار صوبائی حکومت کو پیشگی آگاہ کیا گیا اور خاص طور پر چار سدہ کی انتظامیہ کو بھی بتایا گیا تھا چارسدہ کی جو انتظامیہ اور پولیس ہے اس نے با چا خان یونیورسٹی کو بھی خبردار کیا تھا۔
تازہ ترین