کراچی(جنگ نیوز) وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ پارلیمان کے فورم کو حکومت اور سیٹ مضبوط کرنے کیلئے استعمال کریں وزیر اعظم کی کارکردگی کا تعلق ایوان میں حاضری سے نہیں پاکستان اور ہندوستان کے حوالے سے جو خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے ایٹمی بم کے استعمال کا وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ ان خیا لات کا اظہارپاکستان تحریک انصاف کے اسد عمر، مسلم لیگ ن کے طارق فضل چوہدری اور ماہر جوہری امور سید محمد علی نے جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ‘‘ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کے دوران کیا۔پروگرام میں پیپلز پارٹی کے عمران ظفر لغاری بھی موجود تھے۔ اسد عمر نے کہا کہ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ پارلیمان کے فورم کو حکومت اور سیٹ مضبوط کرنے کیلئے استعمال کریںپارلیمنٹ میں حاضری کم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے تحریک انصاف کے اسد عمر نے کہا کہ وزیر اعظم جو ایک غلطی کر رہے ہیں وہ یہ کہ وہ پارلیمان کے فورم کو اپنی طاقت کو مضبوط کرنے ذاتی طور پر نہیں یعنی وزیر اعظم کی سیٹ ، حکومت کیلئے اسے استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ طارق چوہدری کے مطابق وزیر اعظم کی کارکردگی یاحکومت کی کارکردگی کا تعلق وزیر اعظم کی ایوان میں حاضری سے نہیں ہوتا اور ضروری نہیں کہ وہ ہر اجلاس میں اول تا آخر بیٹھے رہیں تو وہ ایک بہترین وزیر اعظم ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف ایوان میں حاضر ہوتے رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی سب کو پتہ ہے ۔ کراچی کا آپریشن دیکھ لیں ، آپریشن ضرب عضب سے اتفاق رائے سے ہوئے۔ ممبران کو چاہئے کہ وہ حاضری کو یقینی بنائیں کیونکہ جو ممبران نہیں آتے ان کی باز پرس بھی کی جاتی ہے۔ پروگرام میں پیپلز پارٹی کے عمران ظفر لغاری نے کہا کہ پارلیمنٹ کو صرف اس دن اہمیت دی گئی تھی جب اسلام آباد میں دھرنا تھا، وزیر اعظم ہائوس کو بچانے کیلئے یا حکومت کو بچانے کیلئے اور پارلیمنٹ کا پچھلا دروازہ اس کام کیلئے استعمال ہو رہا تھا ۔پارلیمان کی میٹنگ بھی ان کی اسی دوران ہوئی ہے اس کے بعد نہیں۔ میں نے خود وزیر اعظم کے خلاف درخواست دائر کی تھی کہ وہ 40دن سے غیر حاضر ہیں ۔ وزراء حاضر کیوں نہیں ہوتے پارلیمنٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا عمران ظفر لغاری نے کہا کہ اعلیٰ سطح کے امور کو زیادہ فو قیت دی جاتی ہے بہ نسبت پار لیمان کے اور میرا نہیںخیال کہ وزیر اعظم شاید اپنے ہی پارٹی کے تمام ہی قوی اسمبلی ممبران سے اب تک ملے ہوں دو ڈھائی سال میں۔ وزیر اعظم کو چاہئے کسی سانحے کے بعد اگلے دن ایوان کو اعتماد میں لیں۔ پی آئی اے کو نجی کمپنی کے حوالے کرنے سے متعلق بھی کوئی میٹنگ نہیں کی گئی۔پارلیمنٹ ملک کا سپریم ادارہ ہے اور اس کا ہم اعتراف کرتے ہیں۔فیصلے جب آصف زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ کرتے ہیں تو لوگ صوبائی اسمبلی بھی کیوں جائیں کے جواب میں ظفر لغاری نے کہا کہ لیڈر شپ صرف رہنمائی کرتی ہے جیسے کے پی کے کی پالسیی بنی گالہ میں بنتی ہے پاکستان کی پالیسی تخت لاہور اور لاہور میںبنتی ہوگی اور یہ ایک روایت ہے۔اسد عمر نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں بڑے فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان پارلیمنٹ کم آتے ہیں۔ اسد عمر نے کہا کہ عمران خان کو بھی پارلیمنٹ آنا چاہئے۔ کمیٹی کو بھی فعال اور وسائل دینے کی اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔پچھلی حکومتوں میں اتفاق رائے سے بڑی ترامیم ہوگئیں لیکن اس حکومت میں چھوٹا بل تک پاس نہیں ہوتا اجلاس نہیں بلائے جاتے۔ ایٹمی جنگ کے خطرات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے وہ زیادہ تر حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ ایٹمی ہتھیار بنانے کا مقصد ہر ریاست کا وہ یہ ہے کہ جنگ کے خطرے کو کم کیا جا سکے نہ کہ بڑھا یا جائے امریکی مفکر کے مطابق ایٹمی ہتھیار بننے کے بعد ایک جنرل کی نوکری جنگ جیتنے سے جنگ کو نا ممکن بنانے سے تبدیل ہوچکی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے حوالے سے جو خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے ایٹمی بم کے استعمال کا وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق دنیا میں90%ہتھیار امریکا اور روس کے پاس موجود ہیں جبکہ بھارت اور پاکستان کے پا س یہ ہتھیار بہت کم ہیں۔ تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ تجربات بھی کم ہیں۔ پاکستان جیسے اپنے ہتھیار میں اضافہ اور بہتری لا رہا ہے اس طرح بھارت میں بھی تیزی سے تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ پاکستان کے جوہری ہتھیار ایک رپورٹ کے مطابق دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں کا جواب دیتے ہوئے سید محمد علی نے کہا کہ کسی قسم کا غیر محتاط استعمال یا پھر سیکیورٹی اور سیفٹی کی بات ہو پاکستان اس بارے میں بالکل بے داغ ہے ا ور کوئی واقع رپورٹ بھی نہیں ہوا، امریکا میں جوہری ہتھیار کم بھی ہوئے اور ایک دفعہ امریکی بمبار جہاز سے اسپین کے ساحل پر گرے بھی چکے ہیں۔ ہمارا جوہری ہتھیار رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم خطے میں امن کو پائیدار بنانے کی خواہش رکھتے ہیںاس کے علاوہ کوئی اور سوچ نہیں ہے۔ پروگرام میں تجزیہ دیتے ہ ہوئے طلعت حسین نے کہا کہ ہندوستان میں صرف امن کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ عوامی ،سیاسی سطح پر میڈیا کے ذریعے بہت کچھ کیا جارہا ہے۔ بی جے پی مودی صاحب بھی جس کوrepresentکرتے ہیں اس کے لیڈر پرو گرا مو ں میں زہر آلود الفاظ استعمال کرتے نظر آ تے ہیں۔ نام استعمال کیا جاتا ہے اسلامک اسٹیٹ کا اور تربیت مسلمانوں کے خلاف بنیادی نفرت پیدا کریں نام داعش استعمال ہو تا ہے داعش اور اسلامک اسٹیٹ کا اصل ہدف مسلمان ہیں مودی صاحب بے جے پی کی سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے یہ ان کی سیاست کا حصہ ہے امن کی خواہش سر آنکھوں پر لیکن جب بھارت سے کچھ بیانات آئیں ان کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ ہندوستان کے اندر خوف ہراس کی فضا کا تعلق صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ ایک اور بات کی جارہی وہ یہ یہاں پر داعش آجائے گی۔