• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے کرپشن کے خاتمے کا کوئی حل نہیں دیا

اسلام آباد (انصار عباسی) اختلافی نوٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے فیصلے نے ملک میں سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ تو کردیا لیکن کرپشن کے مسئلےسے نمٹنے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا۔ فیصلے میں کئی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جنہیں مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی ایجنڈا کے مطابق استعمال کر رہی ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ نون اپنے دفاع کیلئے مرکزی فیصلے کا حوالہ دیتی ہے جبکہ اپوزیشن کی توجہ ججوں کے نوٹس پر ہے تاکہ وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے تمام تر اختیارات کے باوجود سپریم کورٹ 6؍ ماہ کے بعد بھی کیس کو انجام تک نہ پہنچا سکی اور اب یہ کیس ایک بے ضرر جے آئی ٹی کو بھیج دیا گیا ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات 60؍ روز میں مکمل کرے۔ صرف مباحثے کی حد تک دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے کہ جے آئی ٹی میں با اختیار افسران ہوں گے تب بھی چند افراد کیلئے یہ کام بہت ہی مشکل ہوگا کہ وہ ریاست کے اینٹی کرپشن اداروں کی مدد کے بغیر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات پر مشتمل وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کریں۔ ہمارے معاملے میں یہ ادارے مکمل طور پر سدھائے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے تشکیل دیا جانے والا نیا بینچ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد ہو رہا ہے اور جے آئی ٹی آزادانہ انداز سے کام کر رہی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے جس چیز کی تجویز سپریم کورٹ نے پیش کی ہے اسے کئی مرتبہ آزمایا جا چکا ہے اور ہر مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ این آر او کیس کے فیصلے میں، سپریم کورٹ نے تمام کرپشن کیسز کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے ایک مانیٹرنگ میکنزم تشکیل دیا تھا اور اس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز شامل تھے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کرپٹ افراد کو سزا دینے کیلئے نیب شفاف انداز سے کرپشن کیسز پر کارروائی کرے۔ لیکن ان سب کے باوجود سدھائے ہوئے نیب کی وجہ سے کرپشن کے یہ تمام مقدمات کا فیصلہ ملزمان کے حق میں سامنے آیا۔ این آر او کیس کے متعلقہ حصے میں لکھا ہے کہ ’’سپریم کورٹ آف پاکستان میں مانیٹرنگ سیل قائم کیا جائے جو چیف جسٹس آف پاکستان یا پھر ان کے نامزد کردہ سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل ہوگا جو مذکورہ بالا کیسز اور این اے او 1999ء کے تحت عدالتی مقدمات کی کارروائی کی نگرانی کرے گا۔ اسی طرح کے مانیٹرنگ سیلز تمام صوبوں کی ہائی کورٹس میں بھی قائم کیے جائیں جو متعلقہ چیف جسٹس یا پھر ان کے نامزد کردہ ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل ہوں گے جو ان مقدمات کی نگرانی کریں گے جن میں ملوث ملزمان کو بری کردیا گیا ہے یا پھر ان کے مقدمات این آر او 2007ء کے تحت ختم کیے جا چکے ہیں۔‘‘ سپریم کورٹ کے اس طاقتور مانیٹرنگ میکنزم کی موجودگی کے باوجود این آر او کرپشن کے دوبارہ بحال کیے گئے کیسز کا فیصلہ یکے بعد دیگرے بااثر ملزمان کے حق میں سنایا گیا۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ ان کیسز میں با اثر ملزم کو متنازع انداز سے سنائے گئے فیصلوں میں بری کیا گیا جن کے تحت دو مختلف احتساب عدالتوں کے فیصلوں میں ناقابل یقین حد تک الفاظ، اصطلاحات حتیٰ کہ پیراگرافس کی مماثلت پائی جاتی تھی۔ مانیٹرنگ سسٹم نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا لیکن جب دی نیوز نے 2011ء میں ان فیصلوں کے متنازع ہونے کا انکشاف کیا تو اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ معاملہ انکوائری کیلئے لاہور ہائی کورٹ بھجوا دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کی انکوائری سے اس اخبار کی جانب سے نمایاں کی جانے والی بات ثابت ہوگئی جس کے باعث متعلقہ ججوں کیخلاف کارروائی کا آغاز ہوا۔ لیکن بعد میں یہ انکوائری بند کر دی گئی کیونکہ متعلقہ ججز ریٹائر ہو چکے تھے جبکہ متعلقہ فیصلوں کا معاملہ دوبارہ سماعت کیلئے نہیں اٹھایا گیا۔ اور اب پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ ہم فاضل چیف جسٹس سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ خصوصی بینچ تشکیل دیں جو اس فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تاکہ الزامات کی تحقیقات کا معاملہ بند گلی میں نہ چلا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کا بینچ نگران کے ساتھ ساتھ جج کا کام بھی کرے گا۔ لیکن، زمینی حقائق وہی ہیں جو ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران تھے۔ پاناما فیصلے کے مطابق چیئرمین نیب، ایف آئی اے وغیرہ ناقابل بھروسہ ہیں کیونکہ انہوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ عجیب تضاد ہے کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے ان اسی چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین ایس ای سی پی اور گورنر اسٹیٹ بینک سے نام طلب کیے ہیں اور ساتھ ہی اس معاملے میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو اہم سیاسی اور حساس معاملے میں شامل کر دیا ہے۔ کرپشن کی روک تھام اور اس لعنت کے خاتمے کیلئے کوئی فوری طریقہ کار موجود نہیں۔ اس کا واحد تک ادارہ سازی ہے لیکن اس مقصد کیلئے عدلیہ سنجیدہ ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ یا پھر ایگزیکٹو۔ یہاں مخالفین کو سیاسی نقصان پہنچانے کیلئے اس پر کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ماحول ایسا بن گیا ہے کہ خصوصاً حکومت کے لوگ آسانی سے ہدف بن جاتے ہیں۔ 
تازہ ترین