اسلام آباد(احمد نورانی)پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے افسران کو یقین ہےکہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے یا تو پاکستانی سیلولر کمپنیوں کی جانب سے جاری کردہ سمیں استعمال کیں یا پھر سیٹلائٹ فونز کا استعمال کیا ، کیونکہ چارسدہ میں افغان سمز استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ سوفیصد مصدقہ بات ہےکہ افغان سمز کی پاکستان میں رومنگ ممکن نہیں ہے کیونکہ تقریباً ایک برس قبل افغان سیلولر کمپنیوں کے پاکستان کی سیلولر کمپنیوں سے ٹاور شیئرنگ معاہدے ختم ہوچکے ہیں۔ ایک افسر نے کہاکہ افغان کمپنیوں کے ٹاور افغانستان میں بارڈر کے قریب نصب ہیں اس لیے پاکستانی سرحد کے اندر 10سے 30کلومیٹر تک افغان سمیں کام کرسکتی ہیں ۔ انہوں نے بتایاکہ جے ایس ایم نظام میں نیٹ ورک کوریج صارفین کے اضافے پر 30کلومیٹر سے کم تو ہوسکتی ہے لیکن کسی صورت اس میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ چار سدہ سے افغان سرحد کا قریب ترین پوائنٹ بھی 50کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر ہے اس لیے افغان سمز کا چارسدہ میں کسی بھی صورت میں استعمال ہونا ناممکن ہے۔ اگر دہشت گردو ں کو موبائل پر کالز موصول ہورہی تھیں تو یا تو وہ پاکستانی سمز استعمال کررہے تھے یا پھر سیٹلائٹ فونز کا استعمال کررہے تھے۔ افسران کاکہنا تھاکہ پی ٹی اے نے پاکستانی کمپنیوں کو اپنے ٹاور پاک افغان سرحد سے کم ازکم 20کلومیٹر اندر نصب کرنے کی ہدایات کیں ہیں ،تاہم افغان کمپنیوں نے افغانستان کے اندر سرحد سے اس قدر قریب اپنے ٹاور نصب کیے ہیںکہ کچھ قبائلی علاقوں یا جہاں تک پاکستانی سرحد کے اندر ان کے ٹاور کی وسعت ہے، وہاں تک افغان سمز قابل استعمال ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ بڑی تشویش ہے کہ موجودہ حالات میں دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات افغانستان سے ہی کیے جارہے ہیں۔ واضح رہےکہ دی نیوز کی جانب سے سانحہ پشاور سے بھی پہلے دہشت گردوں اور اغواء کاروں کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں میں افغان سمز کے استعمال کی نشاندہی کی گئی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر کوئی بھی ادارہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔