• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ محاوروں میں کاٹ چھانٹ، کمی بیشی کی ضرورت ہے۔ یوں بھی زمانہ ایسا ہے کہ مختلف اشیاء کی ری لانچنگ کی جاتی ہے، گانے ری مکس کئے جاتے ہیں، فلموں کے سیکولز تیار ہوتے ہیں تو محاوروں کے ساتھ ٹمپرنگ کون ساگناہ ہے۔ایک ’’ادھورا‘‘ محاورہ کچھ اس طرح سے ہے کہ …’’دیمک کے دانت، سانپ کے پائوں اور چیونٹی کی ناک کبھی کسی نے نہیں دیکھی‘‘ تو میں سوچتا ہوں کہ اس محاورے میں’’کرپشن‘‘ کو بھی شامل کیوں نہ کرلیں کیونکہ کنگ سائز کرپشن پورے ملک کو کھاجاتی ہے، اسے بری طرح کھوکھلا کرکے لوگوں کو خود کشیوں تک پر مجبور کردیتی ہے لیکن آج تک کبھی کسی نے’’ہوتی‘‘ نہیں دیکھی اور نہ ہی آج تک کوئی کنگ سائز کرپٹ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے اور یہ جو چھوٹے موٹے رشوت خور رنگےہاتھوں پکڑے جاتے ہیں یہ بے چارے کر پٹ نہیں ککڑی چور ہوتے ہیں۔’’سوکن کیا سہیلی کیا‘‘ والا محاورہ بھی خوب ہے۔ شروع شروع جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا رومانس شروع ہوا تو میں نے جی بھر کر اس کا مذاق اڑایا کہ یہ بیل کسی طور منڈھے نہیں چڑھے گی۔ چند (ن) لیگی لونڈوں لپاٹوں نے ٹی وی پروگرام میں بہت برا منایا تو انہیں سمجھایا کہ برخوردار! ایک گدڑی میں کئی فقیر تو اکٹھے رہ سکتے ہیں، ایک نیام میں دو تلواریں اور ایک علاقے یا دھندے میں دو ڈان اکٹھے نہیں رہ سکتے لیکن تب زرداری نواز کی جپھیاں پپیاں عروج پر تھیں۔ نسل در نسل نوٹنکی کی باتیں ہورہی تھیں لیکن پھر کیا ہوا اور آج کل کیا ہورہا ہے۔ وہ تو عمران خان پلہ نہیں پکڑا رہا ورنہ زرداری اس کے ساتھ مل کر ایسا کاری وار کرے کہ جاتی امرا کی جڑیں ہل جا ئیں یعنی نتیجہ وہی کہ …’’سوکن کیا سہیلی کیا‘‘ ۔’’روپ کی رووے بھاگ کی کھائے‘‘ والا محاورہ میاں نواز شریف پر ایسے فٹ بیٹھتا ہے جیسے انہی صاحب کو دیکھ کر بنایا گیا ہو، یعنی روپ والی روتی پھرتی ہیں، نصیبوں والیاں راج کرتی ہیں۔ میاں صاحب’’میرٹ‘‘ پر فلاپ وکیل ہوتے یا سی کلاس سنگر۔ جو آدمی کئی بار وزیر اعلیٰ تین بار وزیر اعظم ہونے کے باوجود’’بوٹی‘‘ لگائے بغیر بات نہیں کرسکتا، یعنی پرچیوں کے بغیر گفتگو سے قاصر ہے وہ قصر سفید(وائٹ ہائوس) میں بیٹھ کر اوباما کے ساتھ گونگا مکالمہ کرتا ہے تو’’روپ کی رووے بھاگ کی کھائے‘‘ جیسا محاورہ یاد کیوں نہ آئے۔’’سونے کی کٹاری کسی نے اپنے پیٹ نہ ماری‘‘ یعنی کٹاری سونے کی بھی ہو تو کوئی اسے اپنے پیٹ میں نہیں کھونپتا لیکن یہ محاورہ شاید مکمل طور پر آئوٹ آف ڈیٹ ہوچکا۔ تیونس کے زین العابدین اور لیبیا کے معمر قذافی سے لے کر ہمارے’’منتخب سلاطین‘‘تک سونے کی کٹاری سے اپنا بہت کچھ کاٹ چکے۔بھلے وقتوں میں لوگ کہا کرتے تھے…’’چاکری میں آکری کیا‘‘ یعنی نوکری میں عزت نام کی کوئی شے نہیں ہوتی اور واقعی آج کل ہر ٹی وی چینل پر بہت سے ’’معززین‘‘ خود جوش و خروش سے اپنی عزتوں کا نیلام کررہے ہیں اور ہر غلام ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتا ہے تو اس بھولے بسرے محاورے کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے۔’’پنڈت جی مرا ہاتھ دیکھنا، بیٹا ماتھا ہی دکھتا ہے‘‘ یعنی خوش بختی ہو یا بدبختی ، دونوں کے آثار دکھائی دے جاتے ہیں۔ آج کل ہمارے ہاں یہی کچھ ہورہا ہے۔ آخری قسط کے آخری سین تک کا انتظار کیا معنی رکھتا ہے۔آثار بتاتے ہیں کہ بیمار بچتا دکھائی نہیں دیتا اور اگر بچ بھی گیا تو معذوری زندگی بھر کا مقدر سمجھو کہ عزت اور ساکھ زندگی یا منصب سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہوتی۔’’بوڑھی بھیڑ بھیڑئیے سے ٹھٹھا‘‘ کا مطلب ہے اپنی  اوقات پہچانے بغیر خود سے طاقتور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا پنگے بازی کرنا اور پھر اسے بھگتنا یا تھوکا چاٹنے پر مجبور ہو کر اپنا رہا سہا بھرم بھی کھو بیٹھنا ۔ ذرا غو ر فرمائیں آپ کو یہ مردہ محاورہ اسلام آباد سے لاہور تک جیتا جاگتا، ناچتا کودتا دکھائی دے گا۔’’دیگ نہیں چمچے بجتے ہیں‘‘ لیکن کچھ دنوں سے اس محاورے کا بھی ستیاناس ہوگیا کیونکہ پہلے واقعی صرف چمچے بج رہے تھے، اب دیگ بھی کھڑکنے لگی ہے۔’’ڈوبتا بھانڈ چلائے، لوگ سمجھیں وہ گائے‘‘ آج کل اپنے ہاں یہ منظر بہت عام ہے۔ بہت سے بھانڈ بیک وقت چیخ چلارہے ہیں اور بہت سے لوگ یہ سوچ کر محظوظ ہورہے ہیں کہ’’راگ درباری‘‘ گایا جارہا ہے۔’’نٹنی بانس پر چڑھی تو پردہ کیسا‘‘یعنی جب شرم، حیا، غیرت ہی تج دی تو لج کیسی؟

.
تازہ ترین