• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور والوں کو جو چیز بہت مرغوب ہے، وہ سر کی مالش کرانا ہے اور وہ اس کے لئے ’’عزت سادات‘‘ کو بھی خطرے میں ڈال لیتے ہیں، چنانچہ ہم نے بڑے بڑے شرفاء کو بیچ لکشمی چوک کے مالشیوں کے ہاتھوں ’’ٹھاپیں‘‘ کھاتے دیکھا ہے اور ظاہر ہے ان میں ان کی رضامندی شامل ہوتی ہے ۔ سر کی مالش کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ مالشیا دونوں ہاتھوں سے سر کو جھنجوڑنے کے بعد درمیان درمیان میں ایک ہاتھ جھاڑ دیتا ہے اور مالشیے کی یہی وہ ادا ہے جو مالش کرانے والوں کو زیادہ پسند ہوتی ہے ،ہمیں ذاتی طور پر مالش کرانا اتنا پسند نہیں ، نہ دوسروں کو مالش کرواتے دیکھنا ہے، کیونکہ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب مالش کنندہ اور ’’مالش زدہ ‘‘دونوں کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ مالش کنندہ بیک وقت مالش بھی کر رہا ہوتا ہے درمیان درمیان میں کسی معزز آدمی کو ایک آدھ جھاڑ کر اپنی انا کی تسکین بھی کر لیتا ہے اور اس مالش کے دوران اپنے دونوں ہاتھوں کی ضرب سے تالی کی آواز پیدا کرکے اپنا ذوق موسیقی بھی پورا کرتا رہتا ہے، اس طرح مالش زدگان بھی اس وقت سرور اور لذت کے عالم میں رتبہ ، منصب، ذات مقام سبھی کچھ بھول جاتے ہیں اور یوں اس کیفیت میں بندہ و صاحب ، محتاج و غنی ایک ہوجاتے ہیں، ان لمحات میں مالش زدگان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں، ان کے جسم میں ایک سنسنی سی دور رہی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے چہرے پر جو شانتی نظر آتی ہے اسے ایک مونوگرام کی صورت میں محفوظ کر لینی چاہئے اور اسے امن عالم کی علامت کے طور پر فاختہ کی جگہ استعمال کرنا چاہئے۔
لاہور والوں کو اگر سر کی مالش کرانا زیادہ مرغوب ہے تو اہالیان گوجرانوالہ بھی اس شوق میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، تاہم ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ انہیں سر کی مالش کی نسبت لتاڑا کرانا زیادہ مرغوب ہے، ایک دفعہ ہم نے گوجرانوالہ میں سڑک کے کنارے واقع ایک سینما کی دیوار کے ساتھ پانچ چھ معزز لوگوں کو اوندھے منہ لیٹے دیکھا تو ہم سمجھے کوئی احتجاجی مظاہرہ ہو رہا ہے مگر دوسرے ہی لمحے ہم پر آشکار ہوا کہ یہ احتجاجی مظاہرہ نہیں بلکہ اجتماعی طور پر لتاڑا کروانے کا مظاہرہ ہے۔ مالشیوں نے دیوار کے ساتھ ہکیں لگوائی ہوئی تھیں اپنے اپنے پہاڑ و فٹ پاتھ پر لٹائے ہوئے تھے اور سہارا لینے کے لئے ان ہکوں کو پکڑ کر اپنے ’’پہاڑو ‘‘ کو پائوں سے ضرب خفیف لگا رہے تھے ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ یہ مالشیوں کے مستقل اڈے ہیں چنانچہ شوقین حضرات لتاڑا کروانے کیلئے یہاں اپنے اپنے’’فیورٹ‘‘ مالشیے کے پاس آتے ہیں اور اوندھے منہ لیٹے من کی مرادیں پاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے ۔
چند روز پیشتر ہم اپنے ایک دوست کے پاس لکشمی چوک میں بیٹھے سبز چائے پی رہے تھے ۔ہمارا یہ دوست ملکی حالات کے بارے میں خاصا پریشان رہتا ہے چنانچہ اس سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے وہ یہ موضوع چھیڑ دیتا ہے اور گھنٹوں بولتا رہتا ہے ۔ مالش ہمارے اس دوست کی بھی کمزوری ہے ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کے ضمن میں تجاویز پیش کرتے کرتے ہمارے اس دوست کی نظر اچانک ایک مالشیے پر پڑی جو ہاتھوں میں تیل کی شیشیاں پکڑے اور کانوں میں میل صاف کرنے والے سلائیاں اٹکائے ’’تیل مالش‘‘ کی صدا لگا رہا تھا ۔ہمارے اس دوست نے مالشیے کو بلایا اپنی ٹانگیں سامنے پڑی ایک کرسی پر بچھائیں اور پیشگی طور پر آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا ۔ مالشیے کا نام مہردین تھا ،دبلا پتلا سا چہرے سے غیر صحت مند، مگر اس کے ہاتھوں میں بلا کا ہنر تھا اس کا اندازہ ہمیں اپنے دوست کے چہرے کے تاثرات سے ہوا وہ اس وقت دنیا و مافیا سے بے خبر لگ رہا تھا اور اس کے چہرے پر وہی شانتی تھی جس کے بارے میں ہم نے تجویز پیش کی ہے کہ اسے ایک مونوگرام کی صورت میں محفوظ کرکے امن عالم کی علامت کے طور پر فاختہ کی جگہ استعمال کرنا چاہئے ۔ دریں اثنا مہر دین سر کی مالش سے فارغ ہو کر بازوئوں اور ٹانگوں کی مٹھی چانپی میں مشغول تھا۔ وہ ہمارے دوست کی دکھتی ہوئی رگوں پر ہاتھ رکھتا اور مارے لذت کے ہمارا یہ دوست سسکیاں بھرنے لگتا۔ ہم بیٹھے چائے کی چسکیاں لیتے رہے پھر ہم نے وقت گزاری کے لئے اپنے اس دوست کو مخاطب کیا اور مالشیے کے آنے سے پہلے سلسلہ کلام جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں سے دوبارہ آغاز کرتے ہوئے کہا’’یار تم نے انتخابات کے بارے میں جو تجاویز پیش کی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘مگر ہمارے فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہمارے دوست نے ہمیں ٹوک دیا اور نیم غنودگی کے عالم میں بولا ’’یار لعنت بھیجو انتخابات پر اس موضوع پر پھر کبھی گفتگو کریں گے ‘‘!
اور یہ جو ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ ہم ذاتی طور پرمالش کروانے کے اتنے شوقین نہیں ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم مہر دین ’’مالشیے‘‘کی سحرکاریوں سے بہت خوفزدہ ہیں یہ دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھنے کا فن جانتا ہے اور وقتی آسودگی کے بدلے دیرپا آسودگی کے بارے میں سوچ وچار کا سلسلہ منقطع کر دیتا ہے ہمیں تو یہ کرکٹ کے میچوں کا سلسلہ بھی مہردین مالشیے کے سلسلے کی کڑی لگتا ہے بلکہ ہم جب کبھی مہر دین مالشیے کو ہاتھوں میں تیل کی شیشی پکڑ کے ایک معزز آدمی کے سر کی چانپی کرتے دیکھتے ہیں اور وہ معزز شخص دنیا و مافیا سے بے خبر مارے لذت کے سسکاریاں بھرتا نظر آتا ہے تو ہمیں سیاست دان ہی نہیں ادب برائے ادب کے قائل ادیب بھی یاد آ جاتے ہیں وہ ادیب جو ادب کو کسی اعلیٰ مقصد کے لئے استعمال کرنے کا قائل نہیں بلکہ وہ اسے محض حصول لذت کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ جو سیاست دان عوام کی دکھتی رگوں سے واقفیت کے ہنر کو صرف اقتدار کو مضبوط کرنے کا وسیلہ سمجھتا ہے وہ بھی مہردین مالشیا ہے ۔ دونوں نے ہاتھوں میں تیل کی شیشیاں پکڑی ہوتی ہیں اور دونوں اپنے اپنے پہاڑوئوں کو سسکاریاں بھرتے چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہیں ۔ہم پر برس ہا برس مہر دین مالشیے ہی نے حکومت کی ہے ۔(قندمکرر)

.
تازہ ترین