• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے اپنے سیاسی اقتصادی اور استحصالی مفادات کے لئے طاقت کےبل پر دوسرے ملکوں پر بالا دستی قائم کرنے کی پرانی روش کے برخلاف چین نے مختلف براعظموں کو بری، بحری اور فضائی کوریڈور کے ذریعے ایک دوسرے کےقریب لانے کی جو راہ دکھائی ہے، اتوار کو بیجنگ میں ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ (اوبور) منصوبے کے تحت ہونے والےعالمی تعاون اجلاس میں دنیا کے 130 ملکوں نے پرزور حمایت کر کے اس کی افادیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یہ دشمنی کی بجائے تعاون کی راہ ہے جس پر پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) کے نام سے سفر کا آغاز ہو چکا ہے اور وزیراعظم نواز شریف کے الفاظ میں جس کا مقصد معاشی ترقی، غربت کا خاتمہ اور دہشت گردی کا انسداد ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ، اسی کی توسیع شدہ شکل ہے جس کا مقصد ایشیا یورپ اور افریقہ کو آپس میں ملانااور چینی صدر شی چن پنگ کے الفاظ میں آزاد تجارت اورجامعیت کے ساتھ امن کی راہیں متعین کرناہے جس پر عملدرآمد سے دنیا کی آدھی آبادی آپس میں جڑ جائے گی۔ چین نے اوبور جسے نئی شاہراہ ریشم کا نام بھی دیا جا رہا ہے، کے لئے 124ارب ڈالر یا تقریباً 130کھرب روپے دینے کا اعلان کیا ہے اور چینی صدر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دنیا میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ انہوں نے مخاصمت اور طاقت کی سفارت کاری کے پرانے طریقوں کو ختم کرنے پر بھی زور دیا اور کہاکہ ہمیں عالمی اقتصادیات کو فروغ دینے کیلئے شفاف اور معقول بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے اصولوں پر مبنی نظام کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ اجلاس میں 29ملکوں کے سربراہوں سمیت 130ممالک کے 1500نمائندے شریک ہوئے بھارت پاکستان دشمنی میں کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی خواہش دل میں لئےخود تنہا ہو گیا۔ اس نے روسی صدر پیوٹن کو بھی روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ صرف شریک ہوئے بلکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ چند طاقتوں کا جارحانہ رویہ تنازعات طے کرنے میں مددگار نہیں ہو سکتا۔ ترک صدر اردوان کا کہنا تھا کہ چین کے منصوبے سے ساری دنیا کا مفاد وابستہ ہے جبکہ برطانوی وزیر خزانہ نے کہا کہ برطانیہ شاہراہ ریشم منصوبے کا فطری شراکت دار ہے، امریکی وائٹ ہائوس کے مشیر نے بھی امریکہ کی جانب سے چین کے انفراسٹرکچر رابطوں کے منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے لئے سی پیک کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس کے تحت دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ یہ منصوبہ مشرقی اور مغربی ایشیا کو ملائے گا درحقیقت اس کے ذریعے ہم نئے جیو اکنامک دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے بھارت جو سی پیک کی شدید مخالفت کر رہا ہے کا نام لئے بغیر کہا کہ یہ منصوبہ کسی ملک کے خلاف نہیں۔ اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ اس میں کوئی بھی ملک شامل ہو سکتا ہے، بھارت کی مخالفت کے باوجود روسی صدر کا اجلاس میں شریک ہونا چین کے اقتصادی وژن کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور تو اور، نیپال نے بھی جو بھارت کے حلقہ اثر میں ہے، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شرکت کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اجلاس میں اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سربراہوں کی شرکت اس منصوبے کی اہمیت کو بین الاقوامی اداروں کی سطح پر اجاگر کرتی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ چینی منصوبے کے ثمرات حاصل کرنے کے لئے دنیا کے دوسرے ممالک بھی اس میں حصہ دار بن جائیں گے جو ’’دشمنی نہیںتعاون‘‘ کے چینی فلسفے کی قبولیت کا مظہر ہوگی۔ دنیا بہت جنگیں دیکھ چکی، اب اسے امن کی طرف آنا چاہئے یہ نیو ورلڈ آرڈر، انسانیت کی فلاح کا ضامن ہو گا۔ پاکستان اس منصوبے میں اپنے اسٹرٹیجک محل وقوع کی وجہ سے مرکزی اہمیت رکھتا ہے اسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے اندرونی استحکام بہت ضروری ہے۔ سیاسی قوتوں کو اس کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور پڑوسی ملک کو بھی اپنے مخاصمانہ رویے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔

.
تازہ ترین