• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیجنگ میں بیلٹ روڈ فورم کے تحت گول میز کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں عالمی امن و انصاف، جمہوریت، قانون کی حکمرانی انسانی حقوق، سماجی ہم آہنگی اور صنفی مساوات کے فروغ کے لئے جدوجہد کرنے پر اتفاق اور اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں میزبان ملک چین کے علاوہ روس، برطانیہ، ترکی اور پاکستان سمیت اقوام متحدہ کے تقریباً دو تہائی رکن ملکوں کے 1500مندوبین کی موجودگی کے سبب یہ اعلامیہ بہت اہم ہے اس میں دنیا کو لڑائی جھگڑوں اور تنازعات سے پاک کرکے امن و استحکام اور ترقی اور خوشحالی کی راہ دکھائی گئی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بعد میں میڈیا سے گفتگو میں ون بیلٹ ون روڈ کے چینی منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ اس سے خطے میں دہشت گردی، نقل مکانی، خوراک اور پانی کی قلت جیسے خطرات پر قابو پانے میں مدد ملے گی تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ سرحدی کشیدگی کم نہ ہوئی تو ترقی کا حصول خواب بن جائے گا۔ چینی صدر شی چن پنگ نے بھی اسی تناظر میں زور دیا ہے کہ تمام ممالک آپس کے تنازعات پرامن طریقے اور باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اس امر میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ترقی امن مانگتی ہے۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اور پاک چین اقتصادی راہداری کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ایک جغرافیائی پٹی پر بسنے والی قومیں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور مربوط انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے امن اور اقتصادی ترقی کو فروغ دیں۔ بیجنگ کانفرنس میں روس کی شرکت اور امریکہ کی کھلی حمایت اس نظریے کے اصابت ظاہر کرتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے خطے میں بھارت ایسا ملک ہے جو نہ صرف اس نظریے کا مخالف ہے بلکہ اس نے پاکستان اور چین کے ساتھ تنازعات کو بلا جواز طول دے کر خطے کے امن کیلئے خطرات پیدا کر رکھے ہیں اور تقریباً تین ارب عوام کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کو دائو پر لگا رکھا ہے، چین کے ساتھ سرحدی تنازعات اور پاکستان کے ساتھ جموں و کشمیر کے مسئلہ پر اس کی ہٹ دھرمی ساری دنیا پر عیاں ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری میں روڑے اٹکانے کیلئے وہ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ گوادر میں دہشت گردوں کے حالیہ حملے، جن میں کئی مزدوروں کی جانیں چلی گئیں اس کا واضح ثبوت ہے۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بلا اشتعال اور مسلسل فائرنگ، افغانستان کے راستے پاکستان کی مغربی سرحد کو غیر محفوظ بنانے اور اب ایران کے ساتھ معمولی مسئلے کو ہوا دینےکی کوشش اس کی بدنیتی ظاہر کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے ایک سال سے خاص طور اس نے ظلم و بربریت کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کے خلاف خود بھارت میں آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں، سینئر بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں پریم شنکر جھا اور ارون دھتی رائے نے نئی دہلی اور سری نگر میں اظہار خیال کرتے ہوئے صاف الفاظ میں بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کو آزادی دے کیونکہ سات لاکھ تو کیا70لاکھ بھارتی فوج بھی ان کی آزادی کی تحریک کو اب دبا نہیں سکتی۔ خود بھارت نواز کشمیری لیڈر فاروق عبداللہ وغیرہ بھی وزیراعظم نریندر مودی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشمیریوں پر مظالم روکیں اور پاکستان اورکشمیری رہنمائوں سے مذاکرات کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جلد سے جلد یہ مسئلہ حل کریں، کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی کشمیری نوجوانوں کے قتل عام پر تلملا اٹھی ہیں اور بھارت کو مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ مودی سرکار نے کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں جیو سمیت پاکستانی ٹی وی چینلز سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا کشیدگی ختم کر کے امن و ترقی کی راہ پرچلنے کے راستے نکال رہی ہے بھارت خطے میں جنگ جیسا ماحول پیدا کرکے اس میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو چاہیئے کہ وہ بھارت کو راہ راست پر لانے کیلئے اقدامات کرے۔

.
تازہ ترین