• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف کی یہ وضاحت کہ پاکستان نے اب تک انتہاپسندی کے خلاف ریاض میں بننے والے اتحاد میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا اور فی الوقت اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کیا جارہا ہے ، ان تمام پاکستانیوں کے لیے باعث اطمینان ہے جو اس حوالے سے شدید فکرمند اورمضطرب ہیں کہ یہ اتحاد مسلم دنیا میں مسلکی تفریق اور انتشار کو مزید بڑھا نے کا سبب نہ بن جائے جس کی وجہ سے کئی عرب ملک پچھلے کئی برسوں سے شدید خانہ جنگی، خوں ریزی او ر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریاض آمد پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے بعد گزشتہ روز روضہ رسول ﷺپر حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ سعودی دارالحکومت میں امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں پاکستان کی شمولیت کا مقصد دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں میں حصہ دار بننا ہے جبکہ ریاض میں قائم ہونے والے انتہاپسندی کے خلاف نئے مرکز کا حصہ ہوں یا نہ ہوں، اس بارے میں پاکستان نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ اور سعودی قیادت کی جانب سے ایران کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے اور باقی مسلم ملکوں کو یہ تلقین کیے جانے کے باوجود کہ وہ اسے تنہا کردیں، وزیر اعظم نواز شریف نے غیرمبہم الفاظ میں اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ دہشت گردی کو کسی مذہب، ملک، علاقے یا خطے سے نہیں جوڑا جاسکتا۔دہشت گرد اپنے علاقے اور ملک تبدیل کرتے رہتے ہیں۔پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ مغرب دہشت گردی کے خلاف صف آراء ہوگیا ہے اور اب مسلم امہ بھی پیچھے نہیں رہے گی۔ بلاشبہ دہشت گردی آج کی دنیا کا نہایت سنگین مسئلہ ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ پندرہ سولہ سال پہلے نائن الیون واقعات کے بعد امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر جو مہم شروع کی گئی، نہ صرف یہ کہ وہ اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس مدت میں دہشت گردی کے دائرے اور شدت دونوں میں بڑا اضافہ ہوگیا ہے ۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ملکوں کی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس افواج تحریک مزاحمت کو ختم تو کیا کمزور بھی نہیں کرسکی ہیں۔ یہ تنظیمیں آج بھی بڑے پیما نے پر مسلح کارروائیوں کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ، عراق ، شام اور یمن خانہ جنگی کے ہاتھوں برباد ہوچکے ہیں جبکہ اس علاقے میں بھاری نقصانات کا سبب بننے والی تنظیم داعش اب افغانستان میں بھی پاؤں پھیلارہی ہے۔اس سوال کا جب تک درست جواب نہیں ڈھونڈا جائے گا ، اس وقت تک وہ اسباب ختم نہیں ہوں گے جو دہشت گرد تنظیموں کو مسلمان نوجوانوں کی مسلسل فراہمی کا باعث ہیں ۔ اس حوالے سے صدر ٹرمپ کی بے نیازی یا بے خبری کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر مودی حکومت کی مذمت کر نے اور اسے کشمیریوں کے مطالبہ حق خودارادی کو پورا کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے بھارت کو دہشت گردی کا شکار ملک قرار دیا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب کوششوں کے اعتراف میں ایک لفظ کہنے سے بھی گریز کیا۔لہٰذا عالمی سطح پر دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ان اسباب کا ازالہ ضروری ہے جو مدارس ہی کے نہیں بلکہ جدید تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کو بھی ان مسلح تنظیموں میں شمولیت پر آمادہ کرتے ہیں۔ جبکہ انتہاپسندی کے خلاف ریاض میں قائم ہونے والے مرکز کا یہ پہلو بہرحال قابل توجہ ہے کہ وہ او آئی سی کے رکن ایک اہم مسلم ملک کے خلاف نظر آتا ہے جبکہ پاکستان روز اول سے پورے عالم اسلام کے اتحاد کا داعی ہے۔ پاکستان کو اپنی یہ پوزیشن برقرار رکھنی چاہیے اور انتہاپسندی کے خلاف بننے والے اتحاد میں اسی وقت شامل ہونا چاہیے جب اس امر کی قابل اطمینان ضمانت مل جائے کہ یہ اتحاد کسی مسلم ملک یا علاقے کے نہیں بلکہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ہے خواہ وہ کہیںبھی ہو۔

.
تازہ ترین