اسلام آباد (نمائندگان جنگ/اے پی پی) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور سوشل میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگا رہے لیکن کوئی بھی جمہوری ملک سوشل میڈیا کو مادر پدر آزادی نہیں دے سکتا اور نہ ہی قبول ہے، قانون اور آئین کے مطابق سوشل میڈیا کے حوالہ سے ریڈ لائن کھینچیں گے، سوشل میڈیا سے متعلق ایشوز کو حل کرنے کیلئے تمام سروس پرووائیڈرز سے بات کی جائے گی کہ وہ پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کریں، سوشل میڈیا کے ایس او پی سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے بنانے کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھوں گا، کچھ لوگ بغیر کسی وجہ سے سوشل میڈیا پر چاچے مامے بن رہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کو ایک دفعہ ضرور دیکھ لیں، کامران کیانی سمیت بیرون ملک موجود کسی بھی ملزم کے انٹرپول قانون کے مطابق ریڈ وارنٹ جاری کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے حوالہ سے تضحیک آمیز مواد اپ لوڈ کرنے پر اب تک 27 آئی ڈیز کی شناخت ہوئی ہے، اس معاملہ میں شامل افراد کے انٹرویوز ایف آئی اے کر رہی ہے، جو بھی ملوث پایا گیا اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ ہتک آمیز مواد اور فوج کی تضحیک روکیں گے۔ منگل کو پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ نیوز لیکس کے حوالہ سے کمیٹی کی رپورٹ چند روز قبل موصول ہوئی جس پر وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کیا، کمیٹی کی آخری سفارش کے علاوہ تمام سفارشات پر عملدرآمد ہو چکا تھا، آخری سفارش جس میں میڈیا کیلئے کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کا کہا گیا تھا اس پر عملدرآمد کیلئے گذشتہ روز پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے ارکان سے ملاقات ہوئی اور آج سی پی این ای، اے پی این ایس اور سینئر صحافیوں سے اس حوالہ سے بات ہوئی ہے جس میں حکومت اور میڈیا کے تعلقات، میڈیا کے ایشوز، پیشہ وارانہ پہلو، ایڈمنسٹریٹو اور سیکورٹی کے امور پر بات چیت ہوئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ون پوائنٹ ایجنڈا پر بھی بات ہوئی ہے۔ اجلاس میں یہ ابہام سامنے آیا کہ کمیٹی کو رپورٹ سی پی این ای کو پیش کرنی چاہئے تھی، یہ رپورٹ اے پی این ایس کو پیش کی گئی ہے تاہم اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کیلئے مل کر سفارشات تیار کی جائیں گی، قومی سلامتی کے ایشوز پر کوڈ آف کنڈکٹ مرتب کرنے کیلئے اے پی این ایس نے اپنی ایک کمیٹی قائم کی ہے، اس کمیٹی میں سی پی این ای اور پی بی سی بھی ممبر ہونے چاہئیں، ان کی جانب سے سفارشات آنے پر حکومتی اراکین بھی شامل ہو کر ان سفارشات کو حتمی شکل دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے نمائندوں سے سوشل میڈیا کے ایشو پر بھی بات کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا غیر منظم طریقہ سے چل رہا ہے، بے نامی آئی ڈیز اور دوسروں کے نام سے آئی ڈی بنا کر جو مرضی آئے شیئر کیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا کی اہمیت کا مجھ سمیت سب کو علم ہے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کیلئے کچھ رولز ہونے چاہئیں، فری فار آل سسٹم سوشل میڈیا کیلئے نہیں دے سکتے، جب سے سوشل میڈیا ایف آئی اے کے سائبر کرائم کے اختیار میں آیا ہے تب سے اسے دیکھ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے واقعات پر وزیراعظم محمد نواز شریف نے واضح ہدایات دیں کہ ان واقعات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اٹھائیں، عدلیہ کی طرف سے بھی ذاتی طور پر مجھے کہا گیا کہ اس معاملہ کا نوٹس لیا جائے، سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد دیکھ کر میں حیران و پریشان ہوا، توہین رسالت کے حوالہ سے تحریر کا ایک صفحہ بھی مکمل نہیں پڑھ سکا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پر فیس بک اور دیگر سروس پرووائیڈرز نے بھرپور تعاون کیا جس کی وجہ سے بہت ساری آئی ڈیز بند ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سوشل میڈیا کے حوالہ سے سڑکوں پر نکلنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں وہ توہین رسالت مواد جو کہ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے وہ ایک نظر دیکھ لیتے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو ہفتوں سے فوج کے حوالہ سے جو تضحیک آمیز پوسٹیں کی جا رہی ہیں وہ کسی پاکستانی کی نہیں ہو سکتیں کیونکہ کوئی بھی محب وطن پاکستانی اپنی فوج کے خلاف اس طرح کی پوسٹ شیئر نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور قربانیاں دے رہی ہے اور دوسری طرف تضحیک آمیز مواد ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب آپ سوشل میڈیا پر فوج یا عدلیہ کے خلاف کسی بھی مسلم لیگی کی نشاندہی کریں تو ہم اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی طرف سے تنقید کے حوالے سے سوال کے جواب میں چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ ایک اہم مذہبی شخصیت ان سے ملنے آئی دوران گفتگو انہوںنے ایک بات یہ بھی کی کہ پیپلزپارٹی آپ پر بہت حملے کرتی ہے جس قماش کی یہ پارٹی ہے وہ اٹیک کرتی ہے تو آپ کی عزت بڑھتی ہے۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی کے بھائی کے ریڈ وارنٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ انٹرپول سےجس کسی کے بھی ریڈ وارنٹ جاری کروانے ہیں یہ عمل قانون کےمطابق ہوگا۔ الطاف حسین کے حوالے سے ہمیں تجربہ ہوگیا ہے ،رینجرز کو شہری امور میں مدد کے لئے طلب کرنے کی بجائے پولیس کومضبوط بنانے کے بارے میں سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ پولیس کلچر میں100 فیصد تبدیلی فوری ممکن نہیں پولیس میں بہت بہتری آئی ہے، مزید بہتری کی گنجائش ہے جب تک پولیس ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرلیتی سول آرمڈ فورسز کو پولیس کی مدد کے لئے طلب کرنا ضروری ہے، رینجرز ،ایف سی، پنجاب کانسٹیبلری اچھے طریقے سے ذمہ داری انجام دےرہی ہے اور قواعد وضوابط کی خلاف ورزی اور شکایت پر احتساب بھی کیا جاتا ہے ملک میں شورش کی کیفیت میں پیرا ملٹری فورسز کو ہی استعمال کیا جاتاہے۔