• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا اور مادر پدر آزادی
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار:سوشل میڈیا پر پابندی نہیں لگا رہے مادر پدر آزادی قبول نہیں، ہتک آمیز مواد اور فوج کی تضحیک روکیں گے۔ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ حکومت کو فوج کی تضحیک کسی قیمت پر گوارا نہیں، یہاں تک سوشل میڈیا پر پابندی بھی لگتے لگتے رہ گئی، وزیر موصوف کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ سوشل میڈیا ہتک آمیز مواد کے لئے نہیں چاہئے ایسا مواد اس ملک کے صاحبان اقتدار ٹویٹس کی صورت آن ایئر کر دیں، کسی کو بھی آئندہ سوشل میڈیا پر کسی کی شان میں ہتک آمیز مواد لوڈ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، اب ان کو چاہئے کہ حاکم محکوم کوئی بھی ایسا کر ے تو ٹانگ دیں، اور امید واثق ہے کہ ہتک بھرے بیانات و پیغامات کی کسی کو بھی اجازت نہ ہو گی، یہ اچھی بات ہے کہ سوشل میڈیا بند ہونے سے بچ گیا، یہ وسیلہ استعمال کرنے والے تمام لوگ اب میڈیا پر اچھی اچھی باتیں کریں، اور ایک بات جو ہم نہایت سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں یہ ہے کہ کوئی تضحیک آمیز مواد پاس آن نہ کرے، ایسا مواد سوشل میڈیا کے حوالے نہ کریں جس سےملکی اداروں تضحیک کا کوئی پہلو نکلتا ہو، سوشل میڈیا کی اصلاح کے علاوہ ہمیں امید ہے کہ اب تو وزارت داخلہ اس نوجوان کو نوکری دیدے گی جس کے باپ نے مرنے کی شرط بھی پوری کر دی، والسلام۔
٭٭٭٭
چیئرمین نیب کی سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری:میڈیا قومی مفادات و اقدار کے تحفظ کے لئے کردار ادا کرے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میڈیا، سوشل میڈیا نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ میڈیا کوئی نیب بھی نہیں، بس جو دیکھتا ہے کہہ دیتا ہے، اور اس کی نظر بھی سکس بائی سکس (6x6) ہے، اس لئے قمر زمان جو چوہدری ہیں، یہ ہرگز فکر نہ کریں کہ میڈیا کبھی قومی مفادات و اقدار کے تحفظ سے چشم پوشی کرے گا، بلکہ وہ تو اب اپنی آنکھیں چار کر چکا ہے، تاکہ ہر ادارے، فرد اور اہل اقتدار کے وہ کونے بھی صاف دکھائی دیں جن تک قلم کی نوک نہیں پہنچ سکتی لیکن کیمرے کی آنکھ اور اس کے کان سارے پوشیدہ امراض سامنے لے آتے ہیں، تاکہ اگر کوئی معالج علاج کرنا چاہے تو پورا مریض اسٹریچر پر سامنے پڑا ہو، اس میں بے وقت کی راگنی، تاخیری ایکشن نے بھی بہت کام خراب کیا ہے، بہرحال نیب بےعیب نے اپنے حصے کا کام کافی حد تک تو کر دیا ہے اور مزید بھی کر رہا ہے کہ اب تو چیئرمین صاحبناصح کا کردار بھی ادا کرتے ہیں مگر کیا کریں کہ قوم پھر بھی غالب کا یہ شعر گنگنانے سے باز نہیں آتی؎
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
نیب کے بارے بعض نابلد نادان یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کہتا ہے؎
سو سو گناہ کئے تری پشت پناہی کے زور پر
ہمارے خیال میں نیب ایک قومی ادارہ اور اس کے چیئرمین قومی ورثہ ہیں۔
٭٭٭٭
بیروزگاری نے بیروزگار نوجوان کا باپ مار ڈالا
بیٹے کو باپ کے مرنے پر نوکری ملتی ہے تو چلو مر جاتا ہوں، بیٹے کی ملازمت کے لئے درخواست دی، صاف جواب ملنے پر وزارت داخلہ کے نائب قاصد نے خود کشی کر لی۔ اب ظالم نظام کو بھی خود کشی کر لینی چاہئے۔ ہمارے اس سسٹم میں واقعی مرنے کے بعد ایکشن ہوتا ہے، اس خود کشی نے تصدیق کر دی، بیروزگار نوجوان کے باپ کی قاتل اس کی بیروزگاری ہے، اور بیروزگاری کا قاتل کوئی نہیں، بیروزگاروں کے قاتل کئی۔ یہ خود کشی بہت سی شرمناک کہانیاں کہہ گئی ہے، اکثر کوئی اہلکار مرتا ہے تو اس کے بیٹے کو نوکری اور بیوہ کو چیک مل جاتا ہے، شاید مجبوروں کی یہی آخری آپشن ہے جو موت کو زندگی بنا دیتا ہے، دو مسئلے ایسے تھے کہ جن کو سب سے پہلے حل کرنے پر سارا زور لگانا چاہئے تھا، بیروزگاری اور توانائی بحران دونوں کو آخری ترجیح بھی نہیں بنایا گیا، بہرحال غم کس بات کا گڈ گورننس میں اس طرح تو ہوتا ہے، ایشین ٹائیگر بننے کے لئے قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں اور قربانی بھی کسی معمولی سے رزق حلال کمانے والے ملازم کی قبول ہوتی ہے، کرپٹ چربی والے موٹے پیٹوں کی تو قربانی بھی ضائع جاتی ہے، یہ قربانی قبول ہو گی اور ضرور کوئی اچھا رنگ لائے گی، دو طبقے بن چکے ایک کے بچے جوان ہو کر نوکری تلاش کرتے ہیں ایک کے بیٹے جوان ہو کر رشتہ تلاش کرتے ہیں، حکمرانوں کو کوئی کچھ نہ کہے وہ معصوم ہیں بے قصور ہیں، اس کا ذمہ دار صرف ظالم نظام ہے جو نہ جانے کس نظام سقے نے ایجاد کیا ہے، بہرحال اس کے مریدین و معتقدین کے ذمہ کچھ نہیں، اس خود کشی پر بہت لے دے ہو گی، حکومت کہے گی خود کشی حرام ہے، مگر وہ شاید یہ نہیں جانتی کہ ایک مقام آتا ہے، کہ کرپٹ عناصر کے لئے دولت اور مفلسوں کے لئے موت حلال ہو جاتی ہے۔
٭٭٭٭
گردہ فروشی کا تو کچھ کریں!
....Oپنجاب اسمبلی:تنخواہیں نہ بڑھنے پر حکومتی ارکان پھٹ پڑے،
ہم سمجھے کہ سرکاری محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھنے پر حکومتی ارکان پھٹ پڑے۔
....Oملک بھر میں گردوں کی فروخت کا گھنائونا کاروبار جاری،
ٹکا ٹک میں کھائے جانے والے تمام معصوم گردوں کا انتقام سامنے آ گیا۔
....Oسپریم کورٹ میں پولیس کی رپورٹ: پنجاب کے کئی دیہات میں لوگ ایک گردے پر زندہ ہیں۔
اسی لئے تو زراعت پیداوار ٹھیک طرح سے نہیں دے رہی، حکومت دیہات میں گردے پورا کرے تاکہ زراعت پوری پیداوار دے سکے۔
....Oبجٹ خدا خوفی کو پیش نظر رکھ کر بنایا جائے، اور کوئی بہتر اقدام بھلے نہ کریں لیکن پنشنرز کی پنشن میں معقول اضافہ اور بجلی کے بلوں سے تمام ٹیکس قلم انداز کر دیئے جائیں اسی طرح تمام نجی اور سرکاری اداروں کے ملازمین کی تنخواہ پر 15فیصد ٹیکس معاف کر دیا جائے کیونکہ تنخواہ پر ٹیکس مزدور کی مزدوری چھیننے کے مترادف ہے۔

.
تازہ ترین