• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی افرادی قوت کی برآمد میں زوال جاری، معیشت اور ترسیل زر متاثر

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان کی افرادی قوت کی عرب ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، کو برآمد میں کمی آئی ہے جس سے ترسیلات زر اور ساتھ ہی مجموعی انسانی وسائل کی برآمدی اہداف متاثر ہوئے ہیں۔ 2015ء میں افرادی قوت کی برآمد 0.94؍ ملین (9 لاکھ 40 ہزار) افراد تھی جبکہ 2016ء میں یہ 0.84 ملین (8 لاکھ 40 ہزار) افراد رہی۔ پاکستان کے اقتصادی سروے برائے 2016-17ء سے معلوم ہوتا ہے کہ 2015 میں سعودی عرب کو 5 لاکھ 22 ہزار 750 ملازمین بھجوائے گئے تھے جبکہ 2016ء میں سعودی عرب میں 4 لاکھ 62 ہزار 598 افراد کو ملازمت پر رکھا گیا۔ اسی طرح، متحدہ عرب امارات کو 2015 میں 3 لاکھ 26 ہزار 986 ملازمین بھجوائے گئے جبکہ 2016 میں یہ تعداد کم ہو کر 2 لاکھ 95 ہزار 645 ہوگئی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ دو ملک ہیں جہاں پاکستانی ملازمین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ملنے والی ترسیلات زر کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آتا ہے۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں پاکستان کے سب سے زیادہ ملازمین کام کرتے ہیں اور 2013 سے لے کر 2016 تک 16 لاکھ افراد ملازمت کیلئے سعودی عرب گئے۔ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات کا نمبر آتا ہے جہاں 12 لاکھ افراد ملازمت کیلئے گئے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرح، بحرین، اومان، قطر اور ملائیشیا جانے والی افرادی قوت کی تعداد میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ بحرین کے معاملے میں 2015 میں یہ تعداد 9029 تھی جبکہ 2016 میں یہ تعداد کم ہو کر 8226 تک جا پہنچی۔ اومان کے معاملے میں 2015 میں 47788 اور 2016 میں 45085 اور قطر کے معاملے میں 2015 میں افرادی قوت کی تعداد 12741 تھی جو 2016 میں کم ہو کر 9706 افراد تک جا پہنچی۔ ملائیشیا کے معاملے میں دیکھیں تو 2015 میں بھیجی جانے والی افرادی قوت کی تعداد 20216 تھی جو 2016 میں کم ہو کر 10625 تک جا پہنچی۔ تاہم، برطانیہ کے معاملے میں صورتحال بہتر رہی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں پاکستان سے 260 افراد ملازمت کیلئے گئے جبکہ 2016 میں یہ تعداد بڑھ کر 346 ہوگئی۔ مجموعی طور پر افرادی قوت کی برآمد میں کمی کے حوالے سے اقتصادی سروے رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس زوال کی وجہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں تعمیراتی سرگرمیوں کی سست روی اور سعودی عرب میں تیل کی قیمتوں میں کمی بھی ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب نے اپنے ٹرانسپورٹ اور انفرا اسٹرکچر کے بجٹ میں 2015 کے مقابلے میں 2016 کے دوران 63 فیصد کمی کی۔ تفصیلات کے مطابق، دنیا بھر میں کام کرنے والے پاکستانی ملازمین کی تعداد 90 لاکھ کے قریب ہے۔ پاکستانیوں کی توجہ کا مرکز مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیں جہاں 54.8 فیصد پاکستانی ورکرز موجود ہیں، یورپ میں 26.8 فیصد جبکہ امریکا میں 11.9 فیصد پاکستانی ورکرز موجود ہیں۔ 2016 کے دوران تقریباً 0.84 ملین ورکرز دنیا کے مختلف ملکوں خصوصاً سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں ملازمت کے حصول کیلئے گئے اور انہوں نے میزبان ملک کی معیشت میں اپنی خدمات کے ذریعے حصہ ڈالا اور ساتھ ہی اپنے ملک اپنی کمائی ہوئی رقم بھیجی۔ اگرچہ 2016 میں افرادی قوت کی برآمد میں کمی واقع ہوئی لیکن سروے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت نے دیگر ملکوں کو برآمد بڑھانے کیلئے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قطر کے امیر نے پاکستان سے ایک لاکھ ورکرز کیلئے فیفا ورلڈ کپ 2022ء کے دوران ملازمتوں کا اعلان کیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کویت کے وزیراعظم کے حالیہ دورے کے دوران، پاکستانی شہریوں پر عائد ویزا پابندی کویتی حکومت نے ختم کر دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی مارکیٹ میں دبئی ایکسپو 2020 کے خصوصی حوالے سے افرادی قوت برآمد کرنے کیلئے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، متحدہ عرب امارات کے حکام کے ساتھ مل کر ورکرز کی تربیت کیلئے بھی کام کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں، متحدہ عرب امارات کی حکومت نے پاکستان میں ووکیشنل ٹریننگ کیلئے اسکلز اپ گریڈیشن ایکریڈیشن کیلئے 4؍ انسٹی ٹیوٹس کا تعین کیا ہے۔
تازہ ترین