• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سال جب وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تھا اس وقت ایک چھوٹے صوبے کے این ایف سی کے ممبر نے انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ چار سالوں سے نواز شریف حکومت ہر نئے سال کے لئے این ایف سی کا اجلاس طلب کرکے نیا این ایف سی ایوارڈ پیش کرنے کے بجائے چار سال پرانے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو مالی رقوم مخصوص کرتی آرہی ہے مگر ان صاحب نے گزشتہ سال یہ بھی حیرت انگیز انکشاف کیا تھا کہ مالی سال 2015-16 ء کے تحت جو این ایف سی ایوارڈ صوبوں میں تقسیم کیا گیا اس میں آئندہ اطلاعات تک کوئی ہیر پھیر نہیں ہوگا‘ میں نے یہ باتیں گزشتہ سال بجٹ پیش کیے جانے کے بعد کالم میں لکھی تھیں مگر آج تک اس رپورٹ کی حکومت کی طرف سے کوئی تردید نہیں ہوئی‘ اس سال جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس کے ذریعے جس طرح ایک بار پھر آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے اس کے بارے میں بجائے کہ میں اپنی رائے پیش کروں‘ میں پاکستان اور خاص طور پر کے پی کی ایک اہم پارٹی اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کا بیان پیش کررہا ہوں‘ ان کا یہ بیان ایک دن پہلے ہی اخبارات میں شائع ہوا ہے‘ اس بیان میں اسفند یار ولی کہتے ہیں کہ ’’قومی مالیاتی ایوارڈ کے بغیر بجٹ پیش کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے‘‘ جبکہ جمہوری حکومت کے دور میں این ایف سی ایوارڈ کا التوا سوالیہ نشان ہے‘ اس کے نتیجے میں صوبوں کو بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو جناب اسفند یار ولی کا یہ بیان اس موضوع پر میری طرف سے لکھے گئے کالموں میں اٹھائے گئے ان اعتراضات کی تصدیق کرتا ہے۔ ’’جنگ کے قاری جنہوں نے ماضی میں میرے یہ کالم پڑھے ہیں اس بات کی گواہی دیں گے کہ میں نے نہ فقط این ایف سی کے بارے میں آئین کی متعلقہ شق پر عملدرآمد نہ کرنے کو آئین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا تھا مگر ایسے اور بھی کئی کالم لکھے جن میں‘ میں نے آئین کی متعلقہ شقوں کے حوالے دیکر ثابت کیا کہ آئین کی ان ان شقوں کی خلاف ورزی کی گئی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال کے بجٹ کی منظوری کے وقت وزیر اعظم ملک میں نہیں تھے اور جس وفاقی کابینہ نے بجٹ پر غور کرنے اور اسے منظور کرنے کے لئے اجلاس کیا تو وزیر اعظم نے لندن سے ٹیلی فون پر کابینہ کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے بجٹ کی منظوری دی تھی‘ میں نے اس وقت آئین کی متعلقہ شقوں کا حوالہ د یکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس طرح وزیر اعظم کی طرف سے بجٹ کی منظوری دینا آئین کی صریح خلاف ورزی ہے‘ بعد میں کچھ اور مبصرین نے بھی اس رائے کا اظہار کیا مگر ’’شریفوں کی حکومت‘‘ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی‘ مگر اس سال کیا ہوا ہے‘ اس سال بجٹ میں اخباری اطلاعات کے مطابق تجویز دی گئی ہے کہ بجٹ کی منظوری کے لئے کابینہ کے اجلاس کے بغیر وزیر اعظم منظوری دے سکتے ہیں اگر اس سال ایسا کیا گیا ہے یا کرنے کا ارادہ ہے تو یہ آئین کی ایک اور سنگین خلاف ورزی ہوگی اگر ایسا کیا جاتا ہے تو قانونی ماہرین کے مطابق یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ اس تجویز کو مسترد کرچکی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ حکومت آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے ! کیا یہ سمجھا جائے کہ اس وقت ملک میں جمہوری حکومت نہیں مگر ’’سول مارشل لا‘ ‘ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک بار پھر آئین کی متعلقہ شق کا حوالہ دیکر ثابت کروں کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کے بغیر تیار کیا جانے والا بجٹ آئین کی اس شق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ 1973ء کے آئین میں نیشنل فنانس کمیشن کے بارے میں آرٹیکل 160ہے‘ اس آرٹیکل کے سب کلاس2 میں کہا گیا ہے کہ :
(2) It shall be duty of NFC to make recommendations to the president as to, (a) the distribution between the Federation and the provinces of the net proceeds of the taxes mentioned in class (3); (b) the making of grants -in-aid by the Federal Government to the Provincial Government; (c) the exercise by the Federal Government and the Provinical Governments of the borrowing powers conferred by the constitution, and (d) any other matter relating to finance referred to the commission by the president.
سب نوٹ: اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کیا اس آرٹیکل کے ان سب کلاسز پر عملدرآمد کیا گیا‘ اگر کیا گیا تو کیا این ایف سی نے ملک کے صدر کو اپنی سفارشات ارسال کیں؟ اگر ارسال کیں تو کب کیں اور ان سفارشات کی تفصیلات کہاں ہیں۔ ان کو کیوں چھپایا گیا؟ اب ہم اس آرٹیکل کے سب کلاس3a کا ذکر کرتے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ
"The share of the provinces in each Award of NFC Shall not be less than the share given to the provinces in the previous Award"
سب نوٹ: یہ سب کلاس کتنی اہم ہے! اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہی چھوٹے صوبے شکایت کررہے ہیں کہ ان کو درست حصہ نہیں دیا جارہا ہے اور سب کچھ پنجاب اپنے پاس سمیٹ کے رکھ رہا ہے‘ اب ہم سب کلاس3B پر آتے ہیں۔جس میں کہا گیا ہے کہ
(3B): The federal finance minister and provincial finance ministers shall monitor the implementation of the Award bi-annually and lay their reports before both houses of Majlis-e-Shoora (Parliment) and the Provincial Asemblies"
سب نوٹ: قبلہ وفاقی وزیر خزانہ بتائیں گے کہ کیا کہیں اس سب کلاس پر عمل کیا گیا‘ کیا کبھی وفاقی وزیر خزانہ اور چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ نے کبھی کسی بجٹ پر عملدرآمد کو مانیٹر کیا؟ اگر کیا تو کب کیا؟ اس کی رپورٹ کہاں ہے؟ افسوس تو یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا رہا مگر آج تک کسی صوبائی حکومت نے اس سلوک کے خلاف اف تک نہیں کی۔ علاوہ ازیں کیا وزرائے خزانہ کی دو سالہ رپورٹ کبھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیر غور لائی گئی؟ اب ہم سب کلاس4 کا ذکر کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ
(4) As soon as may be, after receiving the recommendations of NFC, the President shall, by order, specify, in accordance with the recommendations of the commission under paragraph (a) of clause (2) the share of the net proceeds of the taxes, mentioned in clause (3) which, is to be allocated to each province, and that share shall be paid to the Government of the Province concerned and not with standing the provision of article 78 shall not form part of the Federal consolidated fund.
سب نوٹ: کیا این ایف سی کی سفارشات تیار ہوکر کبھی صدر مملکت کو ارسال کی گئیں؟ اگر کی گئیں تو کب اور وہ سفارشات کیا تھیں؟ دوئم ان سفارشات پر صدر مملکت کو آرڈر جاری کرنا تھا‘ کیا صدر نے کبھی ایسا آرڈر کیا ؟ اگر کیا تو کب کیا اور وہ آرڈر اخبارات میں کیوں شائع نہیں کیا گیا چونکہ کالم کے لئے مخصوص Space ختم ہورہا ہے لہٰذا میں فی الحال یہ کالم یہیں ختم کرتا ہوں اور باقی گزارشات آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔



.
تازہ ترین