وزیراعظم نوازشریف سب سے بڑی وسط ایشیائی ریاست قازقستان غیر معمولی اہمیت کے سفارتی مشن پر پہنچے ہیں۔ وہ اس تاریخ ساز تقریب میں شرکت کریں گے جو آج شنگھائی تعاون تنظیم کی توسیع کے لئے صدارتی محل میں منعقد ہوگی۔
نوازشریف اس تنظیم میں پاکستان کی باضابطہ شمولیت کی علامت کے طورپر اس دستاویزات پر دستخط ثبت کریں گے جس پر ان کے علاوہ ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی بھی دستخط کریں گے جس کے ذریعے بھارت کو بھی اس تنظیم میں شمولیت مل جائے گی اور اس طرح شنگھائی تنظیم دنیا کے چالیس فیصد سےزیادہ آبادی کو اپنے دامن میں سمیٹ لے گی۔
کثیر جہتی مقاصد کی حامل اس تنظیم کے ارکان ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے پابند ہوں گے۔ وہ باہمی تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے مکلف ہونگے۔
وہ توانائی، معیشت ، باہمی رابطوں اور انسانی وسائل کی ترقی کے لئے باہم تعاون کو فروغ دیں گے اور دہشت گردی و منشیات جیسی لعنتوں سے انسانیت کو نجات دلانے کے لئے دست تعاون ایک دوسرے کی جانب بڑھائیں گے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کو وہ مفسدانہ کردار ادا کرنے کا موقع میسر نہیں ہوگا جو اس نے سارک جیسی تنظیم میں ادا کرکے اسے غیر موثر بنا کر رکھ دیا ہے۔
دنیا بھر میں علاقائی تنظیمیں فعال ہوتی ہیں اور ان کی اثرانگیزی میں اضافہ ہوا ہے لیکن بھارت نے سارک میں اس تجربے کو کامیابی سے دوچار نہیں ہونے دیا۔
وہ شنگھائی تعاون کی تنظیم میں ایسا نہیں کرسکے گا کیونکہ اس میں فیصلہ کن اثرورسوخ چین کو حاصل ہوگا جسے روس کا سرگرم تعاون حاصل ہے۔
پاکستان جسے بھارت نے سارک میں اس کے جائز اور شایان کردارکی ادائیگی کی راہیں مسدود کررکھی ہیں ۔اس نسبتاً نئی تنظیم میں زیادہ موثر اور نمایاں کردار ادا کرسکے گا کیونکہ چین اور روس دونوں پاکستان سے ایسے ہی فعال اور سرگرم کردارکی توقع رکھتے ہیں۔
شنگھائی تعاون کی تنظیم میں پاکستان کی بطور مکمل رکن شمولیت بلاشبہ اعزاز ہے اور اس تاریخی موقع پر بھی نوازشریف ہی پاکستان کے وزیراعظم ہیں ۔
پاکستان ایسے موقع پر تنظیم کا رکن بن رہا ہے جب پاکستان کے لئے اس کے عقب کا خطہ جو خلیجی تعاون کا علاقہ کہلاتا ہے شدید بحران سے دوچار ہے۔
پاکستان جن ممالک کو اپنا برادر قرار دیتا آیا ہے جنہیں وہ اپنی مضبوطی کا باعث قرار دیتا آیا ہے اچانک باہم سرپھٹول میں مصروف ہوگئے ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد سے آستانہ آتے ہوئے اپنے خصوصی طیارے میں غیر رسمی تبادلہ خیال کرتے ہوئے خلیجی اور عرب صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔
ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو اس سلسلے میں برادرانہ کردار ادا کرنا چاہئے لیکن اس سلسلے میں معاملات کے انتہائی حساس ہونے کی وجہ سے اسے غیرمعمولی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ان کے خیال میں سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ تنائو میں موجودہ اضافے کو بڑھنے سے روکا جائے اور کشیدگی کسی نئے انداز میں نہ ڈھلنے پائے۔
حکومت اس صورت حال میں سوچے سمجھے بغیر چھلانگ لگا دینے کا ارادہ نہیں رکھتی وہ اچھی طرح سوچ بچار کے بعد اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائے گی۔