• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز اپنے قیام سے لے کر آج تک چار مرتبہ مارشل لا کا سامنا کرچکا ہے۔جب بھی منتخب جمہوری حکومتوں کو رخصت کیا گیاتو ایک ہی الزام لگایا گیا کہ کرپشن بہت بڑھ گئی ہے۔نئی آنے والی غیر جمہوری حکومتوں نے کرپشن کے خلاف تحقیقات بھی شروع کیں مگر بعد میں انہی کیسز کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیا گیا۔اس دوران دیکھا گیا ہے کہ یا تو کرپشن کرنے والے افراد کی حمایت کی گئی یا پھر خفیہ قوتوں کے کہنے پر ان کرپٹ سیاستدانوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا گیا۔بدقسمتی سے انہی کرپٹ افراد کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر سرایت اختیار کرگیا کہ ملک میں صرف سیاستدان ہی کرپٹ ہیں۔کسی بھی سیاستدان نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش نہیں کی ،بلکہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کرپٹ سیاستدانوں کی کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔آج اگر ملک کی سب سے بڑی جماعت سمجھی جانے والی پیپلزپارٹی صرف اندرون سندھ تک محدود ہوگئی ہے تو وجہ کرپٹ عناصر ہیں ۔کرپشن ایک ایسا عنصر ہے ،جس کا بوجھ بڑی سے بڑی سیاسی جماعت بھی برداشت نہیں کرسکتی اور جس سطح کی کرپشن پی پی پی کے کچھ منتخب نمائندے کرتے رہے ،اس کے بعد تو آپ عوام میں جانے کے قابل بھی نہیں رہتے۔افسوس ہوتا ہے کہ تبدیلی کے بلند بانگ دعوے کرنے والی تحریک انصاف کرپٹ سیاستدانوں کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے۔بلکہ ازراہ تفنن یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پی پی پی کرپشن سے پاک ہوتی جارہی ہے۔آج تحریک انصاف کرپٹ سیاستدانوںکا نیا ٹھکانہ ہے۔ کرپٹ افراد شامل کرنے سے عمران خان اپنی سیاسی جنگ کو بند گلی میں دھکیل رہے ہیں۔فردوس عاشق اعوان،ایک سابق وزیراور ان کے بھائی کی تحریک انصا ف میں شمولیت سے تبدیلی کے نعرے کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ تحریک انصاف میں شامل ہوئیں تو قومی اخبارات اور سوشل میڈیا پر ان مفت بسوں کا خوب چرچا ہوا،جو گیلانی صاحب سے این جی او کے نام پر لی گئی تھیں اور پھر سیالکوٹ جاکر پبلک روٹ پر ڈال دی گئیں۔نیب کے ایکشن کے بعد بسیں تھانے میں بند ہیں۔فردوس عاشق اعوان اس عمل کو نیب کی "زیادتی "قرار دیتی ہیں ۔کسی پر الزام لگانا مناسب نہیں ہوتا۔لیکن کچھ معاملات کا عینی شاہد ہوں ۔خاکسار نے چار سال قبل ای او بی آئی میں ہونے والی اربوں روپے کی بے ضابطگیوںپر تحقیقاتی پروگرام کیاتو سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لے لیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے پروگرام کی ریکارڈنگ کے ساتھ ساتھ اس خاکسار کو بھی ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔یکم جولائی 2013کو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سیکرٹری ایچ آر ڈی نے چیف جسٹس کے سامنے اس خاکسار کے اعداد و شمار کی تصدیق کی اور بتایا کہ سابق چیئرمین ای او بی آئی نے 40ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں کی ہیں۔جن کی تحقیقات ہونی چاہئے۔اس موقع پر سیکرٹری داخلہ نے بھی بتایا کہ انہوں نے آزادانہ ذرائع سے تمام معاملات کی تصدیق کرائی ہے اور ای او بی آئی میں بڑے پیمانے پر مالی کرپشن کے ثبوت ملے ہیں۔جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا اور اس خاکسار کو تحقیقاتی اداروں سےمعاونت کی بھی ہدایت کی۔ابتدائی سماعتوں کے دوران سا بق چیئرمین کی عدم گرفتاری پر سپریم کورٹ نے شدید برہمی کا بھی اظہار کیا۔جس کے بعد بالآخر ایف آئی اے نے ان کو گرفتار کرلیا۔ گرفتاری کے بعد ایف آئی اے اسلام آباد،لاہور اور کراچی نے 14زمینوں کے حوالے سے مقدمات درج کئے۔چار سال تک پاکستان کی کوئی ایسی عدالت نہیں تھی جہاں پر ضمانت کی درخواست دائر نہ کی گئی ہو۔پاکستان کی تمام عدالتوں نے ٹھوس شواہد اور اربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت سامنے آنے کی وجہ سے انہیں رہا نہیں کیا۔ایف آئی اے کی طرف سے روایتی سست روی کی وجہ سے بالآخر ان کو چند ماہ قبل ضمانت کا پروانہ مل گیا ۔تاہم کرپشن کے کیسز میں تحقیقات تاحال جاری ہیں۔ہر شخص جانتا ہے کہ پی پی پی دور میں پارٹی کےتین بڑے لیڈروں ایک مبینہ ٹرائیکا ہوتی تھی۔اسی مبینہ ٹرائیکا نے یوسف رضا گیلانی کی ناپسندیدگی کے باوجود انہیں ای او بی آئی کا چیئرمین بنوانے کے لئے راہ ہموا ر کی تھی ۔کیونکہ یوسف رضاگیلانی نے ان کو این ایچ اے سےمبینہ کرپشن پر نکا لا تھا۔مگر ٹرائیکا کے دباؤ اوران کے بھائی سمیت تین ارکان نے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تو ان کو 200ارب روپے کے فنڈز پر بٹھادیا گیا۔کرپشن کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔لیکن جب تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان بھی انہی کرپٹ لوگوں کے ساتھ نئے پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں تو ایسے میں تبدیلی کا نعرہ پھیکا پھیکا سا معلوم ہوتا ہے۔کسی پر الزام ہونے تک بات سمجھ میں آجاتی ہے۔لیکن جب کرپشن ثابت ہوجائے تو کوئی معافی نہیں ہونی چاہئے۔ سابق وزیر جب وفاقی وزیر خوراک تھے ،تب بھی سنگین کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ،جس پر وزارت سے ہٹانے کا پروانہ بھی جاری کیا گیا مگر ٹرائیکا کامیاب ہوئی اور وہ دوبارہ بحال ہوگئے۔
ای او بی آئی اسکینڈل پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت کا سب سے بڑا مالیاتی کرپشن اسکینڈل تھا۔جس کی تصدیق پاکستان کے تمام تحقیقاتی ادارے کرتے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ اب عمران خان اربوں روپے کرپشن کے مجرمان کا دفاع کیسے کریں گے؟ کیا عمران خان ان تمام بالا حقائق سے ناآشنا تھے؟ قومی اخبارات و نشریاتی اداروں پر نشر ہونے والی خبر سے معلوم ہوا کہ سابق وزیر نے پورے خاندان کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔کیا اب سابق چیئرمین کی اربوں روپے کرپشن کیس کی ضمانت میں توسیع کے لئے عمران خان صاحب اپنا وکیل بھیجا کریں گے۔کیا پاناما پر قوم کو کرپشن کی روک تھام کا بھاشن دینے والے اب ان دونوں بھائیوں کا دفاع کیا کریں گے؟ یہ وہ تلخ سوالات ہیں۔جن کا بہر حال عمران خان کو جواب دینا ہوگا اور یہ جواب عام انتخابات میں پاکستان کے غیور عوام لیں گے ۔وہ کرپٹ اشخاص جن کا بوجھ بھٹو صاحب کی جماعت برداشت نہیں کرسکی ،آج تحریک انصاف کیسے کرے گی؟اس حماقت پر بہرحال عمران خان کو از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔وگرنہ داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

تازہ ترین