تقریباً دو سال پہلے پاکستان میں وکلا‘ میڈیا ‘ قومی سیاستدان اور عام شہری ”گو مشرف گو“ نعرہ لگا رہے تھے۔ مشرف صاحب نے یہ مطالبہ اس وقت مانا ‘ جب انہیں فوج کی طرف سے جھنڈی دکھائی گئی اور گئے تو یوں گئے کہ ملک بھی چھوڑ دیا۔ اب اسی پاکستان کی وہ ساری قوتیں جو پرویزمشرف کے لئے ”گوگو“ کے نعرے لگایا کرتی تھیں بیک زبان مطالبہ کر رہی ہیں ”کم بیک مشرف کم بیک“۔ پہلا نعرہ بھی عدالت عظمیٰ کی طرف سے عوام کو عطا ہوا تھا۔ اب نیا نعرہ بھی عدالت عظمیٰ ہی کے نوٹس کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ جس طرح مشرف صاحب نے پہلے نعرے پر انتہائی مجبوری کی حالت میں عمل کیا۔ موجودہ نعرے پر بھی اسی طرح مجبور ہو کر وطن واپس آئیں گے۔ وہ لندن میں مقیم ہیں اور وہاں کے جمہوریت پسند اور شہری آزادیوں کے حامی مشاورت شروع کر چکے ہیں کہ جنرل مشرف کو برطانیہ میں حاصل شدہ تحفظات و مراعات حاصل کرنے سے کس طرح روکا جائے۔ یہ لوگ برطانیہ کے نامور ماہرین قانون اور شہری آزادیوں کے حامی ہیں۔ اس سے پہلے وہ چلی کے فوجی آمر پنوشے کو واپس ان کے وطن بھجوانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسے بھی برطانوی حکومت نے کافی تحفظات دے رکھے تھے جبکہ چلی کی حکومت اور عوام اسے وطن واپس لا کر اس کی کرتوتوں کا حساب لینا چاہتے تھے۔ برطانوی جمہوریت پسندوں کو پنوشے کی واپسی کے لئے طویل مدت جدوجہد کرنا پڑی اور وہ زندگی کے آخری لمحات میں وطن واپس گئے۔ مگر چلی کے عوام نے اپنے وطن میں ہزاروں سیاسی کارکنوں کو شہید ‘ لاکھوں جمہوریت پسندوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے اور ہزاروں کو ان کے گھروں سے غائب کر کے ہمیشہ کے لئے لاپتہ کرنے کے جرم میں پنوشے کو عدالتوں میں دھکے کھاتے ضرور دیکھ لیا۔
اب یہی لوگ جنرل مشرف کو برطانیہ میں تحفظات دینے کے خلاف قانونی کارروائی پر غوروخوض کر رہے ہیں۔ پنوشے کے خلاف کیس بنانے اور لڑنے کی وجہ سے انہیں کافی تجربہ حاصل ہو چکا ہے۔ اس مرتبہ امید ہے کہ وہ جلد اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔ دو تین روز پہلے جنرل مشرف برطانوی پارلیمنٹ کی ایک سب کمیٹی کے کانفرنس روم میں خطاب کے لئے گئے۔ اس کے میزبان بھی انہوں نے خود ہی تیار کئے تھے اور دیہاڑی دار حاضرین کا انتظام بھی اپنی جیب سے کیا تھا۔ مگر ان کی بدقسمتی کہ مفت کے مظاہرین‘ دیہاڑی دارحاضرین پر چھائے رہے۔ ان کی تقریر کے دوران مخالفانہ نعرے لگتے رہے اور وہ گھبراہٹ کے عالم میں اپنی پرانی تقریروں کے ٹوٹے چلا کر وقت گزارتے رہے۔ لارڈ نذیر اس میٹنگ پر بھی معترض ہیں اور انہوں نے پارلیمنٹ کی انتظامیہ سے شکایت کر دی ہے کہ ایک آمرو آئین شکن حکمران کو جمہوریت کے تاریخی مرکز میں جلسہ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟وقت کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں ان کے ہمدردوں اور ساتھیوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کی طلبی کے بعد برطانیہ کے قانون دان حلقوں کی حرکت میں مزید تیزی آنے کی امید ہے۔ میرے دوست وسیم باجوہ جو شہری حقوق کی ہر مہم میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اس بار وہ بھی اپنا کردار ادا کریں گے اور یہ سارے کے سارے لوگ عدالت عظمیٰ کے حکم کے احترام میں مشرف صاحب کو برطانیہ بدر کرنے کی ذمہ داری ضرور پوری کریں گے۔ آگے کا انتظام حکومت پاکستان کو کرنا ہو گا کہ برطانیہ سے نکالے جانے پر انہیں سیدھے پاکستان لایا جائے۔ قبل اس کے کہ وہ کھسک کر کسی ایسے ملک میں چلے جائیں ‘ جہاں کی حکومت انہیں تحفظ دینے پر رضا مند ہو۔
میں 3 نومبر کے اقدام سے بڑا جرم 12 اکتوبر کے اقدام کو سمجھتا ہوں۔ اس وقت ملک میں ایک متفقہ آئین نافذ تھا۔ جس سے 58(2)B کو مکمل اتفاق رائے سے ختم کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی بحال کر دی گئی تھی۔ ملک میں دو تہائی اکثریت کی حمایت سے منتخب ہونے والے نوازشریف وزیر اعظم تھے۔ پرویز مشرف نے آئین توڑ کر منتخب حکومت کو ختم کرنے کا جواز یہ بتایا تھا کہ ان کے جہاز کو اغوا کر کے انہیں ہلاک کرنے کی سازش کی گئی۔ عدالت عظمیٰ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے‘ نوازشریف کی سزا ختم کر دی ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد جو لولا لنگڑااور قانون کی نظر میں بے معنی جواز پیش کیا گیا تھا۔ وہ بھی ختم ہو گیا۔ اب پرویزمشرف پر آئین توڑنے کے جرم میں مقدمہ قائم کر کے‘ آئین کی شق6 کے تحت سزا دینے کا راستہ کھل گیا ہے۔ اصل مقدمہ وہی ہو گا۔ 3نومبر کا آئین 17ویں ترمیم سے داغدار ہے۔ اس کی خلاف ورزی سے بڑا جرم 1999ء کے متفقہ آئین کی خلاف ورزی تھی۔ پرویزمشرف کو اسی آئین کی خلاف ورزی کے جرم میں طلب کیا جانا چاہیے۔
ہم ایک آمر سے عدالتی بازپرس کے فیصلے پر خوش تو ہو رہے ہیں۔ لیکن ماضی کے تجربات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ آمریت ختم ہونے کے بعد آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ہم کبھی کوئی موثر کارروائی نہیں کر سکے۔ ایوب خان جنہوں نے پاکستان کا پہلا آئین ختم کر کے مارشل لا نافذ کیا تھا۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد پرآسائش زندگی گزارتے رہے۔ یحییٰ خان کی حکومت ختم ہونے پر ان کے خلاف مقدمہ چلا اور ان کی حکومت کو ناجائز بھی قرار دے دیا گیا۔ لیکن یہ فیصلہ محض ایک کتابی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پر عملدرآمد کی گنجائش نہیں تھی۔ ضیاء الحق نے آئین ہی نہیں‘ ہمارا معاشرہ ‘ ہماری اقدار‘ ہمارا سماجی توازن ‘ ہر چیز کو توڑ دیا۔پاکستان میں اسلحہ‘ منشیات‘ دہشت گردی‘ بدامنی اور قانون کی خلاف ورزیاں ضیا الحق کے اسلام کی یادگاریں ہیں۔ ان کی سزا کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر نہیں چھوڑا۔ مرزا اسلم بیگ کو عدالت عظمیٰ نے ایئرمارشل اصغر خان کی طرف سے دائر کردہ ایک مقدمے میں طلب کیا۔ تو انہوں نے عدلیہ کا مذاق اڑاتے ہوئے پیغام بھیجا ۔ ”اگر ہمت ہے تو مجھے عدالت میں بلا کر دکھائیں۔“عدالت عظمیٰ انہیں آج تک پیش ہونے پر مجبور نہیں کر سکی۔ مجھے پرانی مثالیں یاد آ رہی ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ پرویزمشرف تو ملک سے باہر بیٹھے ہیں۔ ہماری عدالت عظمیٰ پاکستان کے اندر موجود ‘جنرل اسلم بیگ کو اپنے سامنے حاضر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ برطانوی جمہوریت پسندوں نے اپنی حکومت کو مجبور کر کے جنرل پرویزمشرف کو پاکستان واپس بھیج بھی دیا‘ تو کیا انہیں عدالت عظمیٰ میں حاضر ہونے پر مجبور کیا جا سکے گا؟ کیوں نہ جنرل مرزا اسلم بیگ کو طلب کر کے اس کی آزمائش کر لی جائے؟ اگر وہ حاضر ہو گئے‘ تو جنرل پرویزمشرف کو بھی عدالت میں لایا جا سکے گا۔ ورنہ نوٹس کے اجرا پر میں انصاف کے طلبگاروں سے یہ بھی کہہ سکوں گا کہ
جی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے