asghar.nadeem@janggroup.com.pk
ہماری سیاست کی ہانڈی کوجب تک شیخ رشید کا تڑکا نہ لگے ذائقہ پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے گوشہ نشین ہو جانے سے سیاست میں وہ چٹخارا اورکرارہ پن باقی نہیں رہا۔ اگرچہ بعض چینلز انہیں گاہے بگاہے تکلیف دیتے رہتے ہیں لیکن ان کی باتوں میں وہ شوخی اور کٹیلا پن باقی نہیں رہا جوان کا خاصا تھا۔ یوں لگتا ہے انگارے پر راکھ کی موٹی تہہ جم گئی ہے باتوں میں عاجزی اور مسکینی کے ساتھ درویشی اور فقیری بھی جھلکنے لگی ہے۔ ایک انٹرویو میں تو شیخ صاحب نے تارک الدنیا ہونے کی دھمکی بھی دی ہے۔ کہتے ہیں اب اکیلے رہنے کو جی کرتا ہے۔ شیخ رشید کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اب وہ اپنے ہی تانگے کی واحد سواری ہیں۔ لیکن یہ اپنے جاوید ہاشمی کو کیا ہوا ہے ان کی پارٹی تو مقبولیت کے فراٹے بھر رہی ہے۔ رائے ونڈ میں بڑی رونق اور چہل پہل لگی ہے ۔ دیگیں ٹھنٹھنا رہی ہیں اور ہر روز پارٹی کو کوئی نہ کوئی خوشخبری بھی مل جاتی ہے جس سے لاہور کے حلوائیوں کی بن آئی ہے۔ مٹھائیوں کی تقسیم کے سلسلے بھی جاری ہیں۔ ایسے میں ہمارا دوست جاوید ہاشمی کہاں ہے؟ اگرچہ میاں نواز شریف جمہوری مزاج کو لے کر چل رہے ہیں اور پارٹی کے کردارکے حوالے سے بے حد محتاط ہیں۔ ذرا سی غلطی بھی برداشت نہیں کرتے۔ ایک ایم این اے جعلی ڈگری اور امتحان میں نقل کی پاداش میں فارغ کیاگیا۔ پھر بھولے بادشاہ چوہدری عبدالرحمن وزیر جیل خانہ جات اپنے جیالے ہونے کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ Excited ہو کر دوغلطیاں کر بیٹھے۔ اب میاں نواز شریف سے بچتے ہیں تو میاں شہباز شریف سے بچنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ چنانچہ چوہدری عبدالرحمن اپنے حصے کی غلطیوں کا کوٹہ پورا کر چکے ہیں۔ اللہ کرے وہ بات بات پر جذباتی نہ ہوا کریں۔ بی بی شمائلہ رانا کا ذکر کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا۔ حاسدوں کو بڑی جلدی جلدی اس طرح کے کیس مل جایا کرتے ہیں۔ بات میاں نواز شریف کی پارٹی کے جمہوری مزاج کی ہو رہی تھی تو ایسے میں پارٹی کے اہم فیصلوں میں مرکزی قیادت کے تمام لیڈر شامل ہوتے ہیں۔ ایسے میں نگاہیں جاوید ہاشمی کو تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ وہ اب جیل سے باہر آ چکے ہیں۔ پھر کہاں ہیں۔ مخدوم رشید میں ٹی وی کیمرے ان تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ اپنے ہونے کا ثبوت دے دیتے ہیں اور ثبوت بھی ایسا دیتے ہیں کہ پارٹی کی پالیسی کے خلاف سرائیکی صوبے کا جواز پیش کرتے ہیں۔ میرے لئے تو جاوید ہاشمی جیل میں ٹھیک تھا۔ کم سے کم ہفتے میں ایک دفعہ بات تو ہو جاتی تھی یا کوئی پیغام ہی مل جاتا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دو کتابیں اردو ادب کو اس بہانے سے مل گئیں۔ جیل سے اس کی آواز ہماری سیاست پر راج کر رہی تھی۔ آزاد ہو کر جاوید ہاشمی کے پر کٹ گئے یا کیا وہ اپنے پر جیل میں چھوڑ آیا ہے۔ بے شمار شعر ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ قفس میں پنچھی کے پر بندھے رہ جاتے ہیں اور جب رہائی ملتی ہے تو وہ اڑان کے قابل نہیں رہتے۔ صرف اس شعر پر اکتفاء کر لیں…
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
کیا جاوید ہاشمی کے ساتھ یہ ہوا ہے یا کوئی اور بات ہے۔ اس بات کا تجزیہ کرنا اس لئے زیادہ ضروری ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جو کچھ ہوا اورجن حالات میں میاں صاحب کی فیملی کو جلا وطن ہونا پڑا… اس دوران میاں صاحب کے بڑے بڑے وفا دار بہانہ کر کے حکومت وقت کی گود میں جا بیٹھے اور بڑے بڑے جغادری کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں نے طے کر لیا کہ اب میاں صاحب کبھی سیاست میں نہیں آ سکتے۔ ایسے میں جو لوگ ڈٹے رہے ان میں عزیزی سعد رفیق اور میرا دوست جاوید ہاشمی تو سب کے سامنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پرویز رشید کی خدمات کو کون بھول سکتا ہے جس نے اپنے خاندان کو داؤ پر لگا دیا اور بھی بہت سے رہنما ہیں۔ یہ موقع ان کے ذکرکا نہیں ہے۔ یہ بتانا مقصود ہے کہ جاوید ہاشمی بغاوت کے جرم میں سزا یافتہ ہو گیا۔ یہ بڑاجرم ہے اور اس جرم کی سزا پھانسی بھی ہوا کرتی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ جاوید ہاشمی نے اس سزا کو اپنے لئے نعمت قرار دیا۔ ذرا بھی اس کے پاؤں نہیں ڈگمگائے۔ وہ مسکراتا ہوا سزا کی کوٹھڑی میں چلاگیا۔ اس کی لکھی ہوئی کتابیں بتاتی ہیں کہ وہ جیل کو اپنا گھر بنا چکا تھا۔ چونکہ ان کی کتابوں کے مسودے مجھے جیل سے انہوں نے خود ارسال کئے اس لئے میں بتا سکتا ہوں کہ اس نے جیل کے قیام کو اپنے لئے خوشگوار تجربہ بیان کیا تھا۔ ظاہر ہے یہ خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا لیکن جاوید ہاشمی نے اپنی کوٹھڑی کے صحن میں سبزیاں اور پھول لگائے۔ روزانہ وہ پھولوں اور سبزیوں کی کیاریوں کو خود سینچتے تھے۔ پانی دیتے تھے اور پودوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ پودے جاندار ہوتے ہیں وہ آپ سے محبت مانگتے ہیں آپ جتنا ان سے پیار کرتے ہیں وہ اتنا پھلتے پھولتے ہیں۔ جاوید ہاشمی آزادی کے اس زمانے میں کہاں چلے گئے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کئی فلمیں یاد آ رہی ہیں۔ جن میں ایک قیدی جیل سے اتنا مانوس ہو جاتا ہے کہ وہ جیل کو آزادی اور جیل کے باہر کی دنیا کو قید سمجھتا ہے۔ اس کا فلسفہ ہوتا ہے کہ سلاخوں کے پیچھے نہیں ہوں پوری دنیا سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اس لئے وہ قیدی جب رہائی پاتا ہے تو کوئی نہ کوئی جرم کرنے کی پلاننگ میں لگ جاتا ہے کہ کسی طرح واپس اپنے ”گھر“ پہنچے۔ لگتا یہی ہے کہ جاوید ہاشمی جیل کے بغیر اداس ہوگیا ہے۔ ویسے بھی اسے بڑی فکر ہو گی کہ جو پودے اس نے لگائے تھے کوئی انہیں پانی دے رہا ہو گا کہ نہیں۔ جو سبزیاں اس نے لگائی تھیں ان کے بیج کسی نے جمع کئے یا نہیں اور اب وہ اس پلاننگ میں ہو گا کہ کسی نہ کسی طرح جیل میں واپس چلا جائے اور اس کے جیل میں واپس جانے میں سب سے بڑی رکاوٹ میاں نواز شریف ہوں گے۔ جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا پارٹی کا ہیرا کوئی ان کی مقبولیت کے عروج کے زمانے میں چرا کر لے جائے۔ ایک اور بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے ملتانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی کبھی نہیں چاہیں کے کہ ان کی مٹی کا سونا جیل میں جا کر ان کے لئے مسئلہ بن جائے۔ تو بھائی جاوید ہاشمی تمہارے لئے جیل جانے کے راستے تو بند ہیں۔ اب ایسا ہے کہ اپنے پھولوں کے پودوں اور سبزی کے بیجوں کی حفاظت کے لئے اپنی ہی پارٹی کے وزیر جیل خانہ جات چوہدری عبدالرحمن پر آپ کو بھروسہ کرنا ہو گا۔ وہ آپ کا یہ کام کر سکتے ہیں۔ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ میاں نواز شریف اپنے اس ہیرے کو جیل جانے سے اس لئے بچانا چاہتے ہوں کہ ان کی اگلی جلا وطنی میں جاوید ہاشمی کی انہیں جیل جانے کے لئے ضرورت محسوس ہو۔