• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے سابق صدر مشرف کو نوٹس دیا ہے کہ وہ29جولائی 2009ء کو ججوں کے معاملے کے سلسلے میں اپنی وضاحت پیش کریں لیکن سابق صدر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل نہیں کریں گے چونکہ انہیں باضابطہ طور پر نوٹس ملا ہی نہیں۔
میں پرویز مشرف کو گزشتہ45سال سے جانتا ہوں ۔ بحیثیت کیڈٹ اور نوجوان افسر وہ دیکھنے کے قابل ہوتے تھے۔ وہ اچھی زندگی گزارنے کے خواہشمند اور مہم جو طبیعت کے آدمی ہیں۔ اسپیشل سروسز گروپ (SSG)ان کے لئے موزوں ترین کام کرنے کی جگہ تھی۔ وہ ذہانت کے مالک اور وقت کے ساتھ گہرے مطالعے کے شوقین بھی تھے۔ شادی کے بعد یہ سنجیدہ ہو گئے اور آل راؤنڈر، ایکشن کمانڈو رہنا پسند کیا۔پرویز مشرف ہمیشہ دلیر اور بہادر، ہر طرح کا خطرہ مول لینے والے آدمی تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ لڑائی میں وہ ہلاک ہو جاتے اگر ان کے ایک دوست صابر شریف شہید نے اپنے سینے پر گولیوں کی بوچھاڑ کو نہ لیا ہوتا۔ انہیں بعد ازاں نشان حیدر عطا کیا گیا ۔ بدقسمتی سے وہ کبھی بھی براہ راست میدان جنگ میں نہیں تھے۔ وہ جنگ کے بارے میں جو تعریف کرتے ہیں اس میں صداقت نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ میدان جنگ میں جانے سے اجتناب کرتے تھے بلکہ صورتحال و مواقع نے انہیں موقع نہیں دیا۔ ایک سپاہی کی حیثیت سے شاید انہیں اسی بات کا شدت سے احساس ہے جس کے باعث وہ احساس کمتری کا شکار بھی رہے۔ بحیثیت میجر جنرل انہوں نے تین اسٹار حاصل کئے۔ منصوبہ بندی کی کمی کے باعث ان کی زیر قیادت آرمی کو جی ٹی روڈ کے مقام پر مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ 1965ء اور1971ء میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ مشرف جی ٹی روڈ کے جنگجو“ مشہور ہوئے۔اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے سے قبل مشرف نے گولی کے ایک فائر کی آواز بھی نہ سنی تھی۔ بادی النظر میں انہوں نے انتہائی خطرناک صورتحال میں اچھے کام کئے۔
تین نومبر کے ایکشن سے ایک ماہ قبل ہی میں نے اپنے ایک مضمون "without the uniform"میں تحریر کیا تھا کہ ”بالآخر آٹھ سال بعد مشرف کا ایسا دور شروع ہوا جس پر کم و بیش معاشرے کے ہر گروہ نے ان کی حمایت کی تھی۔ ماسوائے چند وہ لوگ جنہیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا ۔ ان کی حکومت بتدریج مارشل لاء کی جانب گامزن تھی۔ عدالت کے تین سے چھ رکنی بنچ کے فیصلے سے متفق نہ ہونے کا پورا حق ہر شخص رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں پر عدم اطمینان کا اظہار محض نفرت کی ایک علامت ہے۔ میڈیا بھی اس قصور میں شامل ہے جس نے اس خبر کو پیش کیا“۔سابق صدر مشرف کے تین نومبر کے اقدامات بحیثیت صدر نہیں تھے بلکہ یہ اقدام ایک آرمی چیف کی حیثیت سے تھے وہ ایک کونے میں محفوظ بھی یونیفارم میں ہونے کے باعث تھے۔ آزاد عدلیہ کے حامی کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ جو اقدامات بھی انہوں نے کئے وہ اس کے ذمہ دار تصور کئے جائیں گے ،چونکہ یہ اقدامات انہوں نے اپنے لئے کئے تھے جو کسی طرح بھی آرمی یا ملک کے مفاد میں نہ تھے۔ ”انہیں رول آف لاء“کا جواب دینا چاہئے کیونکہ وہ شخص جس نے اس ملک میں احتسابی عمل شروع کر کےNABقائم کیا اب خود ہی احتسابی عمل سے ٹیکنیکل گراؤنڈ پر بچنے کی کوشش کر رہا ہے کیا یہ وہی بہادر سپاہی ہے جسے میں جانتا تھا اور جس کے ساتھ فرائض انجام دیئے؟
اب سوال سپریم کورٹ کے بنچ کی غیر جانبداری کا اٹھے گا چونکہ بنچ میں شامل وہ تمام ججز تین نومبر کے اقدام سے متاثر ہوئے تھے لہٰذا مشرف کی وضاحت سنے بغیر سپریم کورٹ کا فیصلہ یکطرفہ ہو گا ۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے انہیں طلب کرنے کے بجائے نوٹس جاری کیا ہے تاکہ انہیں اپنی وضاحت کا موقع مل جائے۔ مشرف کو وضاحت کرنا چاہئے نہ صرف اپنے لئے بلکہ وہ وردی جو انہوں نے صدر بننے سے پہلے پہنی تھی اس کی خاطر بحیثیت حکمران مشرف نے پاکستان کے لئے اچھے کام بھی کئے ہیں۔اس طرح وضاحت سے اجتناب کرنے سے ان لوگوں کو بھی موقع مل جائے گا جو احتساب کے دائرے میں آتے ہیں اور ان کے بہت سے کام ایسے تھے جو قانون کے مطابق بھی نہ تھے۔بالفاظ دیگر کرپٹ لوگوں کو راہ فرارمل جائے گا۔ 3نومبر کا ایکشن بطور آرمی چیف ججوں کو فارغ کرنے، نہ صرف فارغ بلکہ کچھ مدت کیلئے تو انہیں زیر حراست بھی رکھا گیا۔ ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن لوگوں نے مشرف کے غیر قانونی حکم کی تعمیل کی۔ یہ اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس سے قبل کہ مشرف کو سنے بغیر عدالت ملامت کرے انہیں وضاحت کرنی چاہئے۔ کم سے کم اس وردی کی خاطر جو انہوں نے کبھی بڑے اعزاز اور فخر سے پہنی تھی۔ ہر سپاہی کو اپنے عمل کا ذمہ دار ہونا چاہئے اس نے جو کچھ کیا ہے اس کے نتائج بھی بھگتنا ہو ں گے۔
شرم کی بات ہے کہ محض قانونی نکات کی آڑ میں بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پرویز مشرف نے بحیثیت صدر بہت اچھا وقت اور ایک اچھی زندگی گزاری ۔ مشرف کے دور میں ان کے دو دوستوں نے خوب فائدہ اٹھایا وہ انہیں کور نہیں بلکہ غلط مشورہ دیکر اپنے آپ کو بچا رہے ہیں۔ بغیر احتساب جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے کہیں زیادہ بدتر ہوتی ہے۔
پرویز مشرف کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ انٹرویو وغیرہ دینا بند کریں اور سپریم کورٹ میں اپنے وکیل کے ذریعے جامع وضاحتی بیان پیش کر دیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ میکارتھر(Macarther)نے کیا کہا تھا کہ بوڑھا سپاہی کبھی نہیں مرتا ۔ وہ تو محض گم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خود ساختہ جلاوطنی میں مشرف بھی گم ہو جائیں گے۔
تازہ ترین