روم جل رہا تھا اور دوسری طرف نیرو امن کی بانسری بجارہاتھا ۔سابقہ مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش میں پاکستانی افواج بنگالیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی تھی اورموجودہ باقی ماندہ پاکستان کے کالم نویس ،دانشور اور اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ حکام پاکستانی عوام کو یہ مژدہ سنارہے تھے کہ” ہماری مسلح افواج ہر محاذ پر مکتی باہنیوں کا صفایا کررہی ہیں اس کی تصدیق کیلئے جماعت اسلامی کے بنگالی رہنماوٴں کے بیانات کی روشنی میں اصل حقائق اور حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ بنگالی عوام کی اکثریت خصوصاً نوجوان الشمس اور البدر کے مجاہدین بن کر ملک دشمنوں اور ان کے ایجنٹ عوامی لیگ والوں کے خلاف سربہ کفن ہوکر جہادبقائے ملت ِمسلمہ خصوصاًپاکستان کے مسلمانوں کو بچانے کیلئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کررہے ہیں اور پاکستان کی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ملک دشمن بنگالی علیحدگی پسندوں کا بے جگری سے خاتمہ کررہے ہیں۔یوں تو خاص طور پر مغربی پاکستان کے تمام عوام و خواص علیحدگی پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کی بھرپور حمایت کررہے ہیں لیکن خصوصاًصوبہ پنجاب کے دانشور ،صحافی اور عوام علیحدگی پسند بنگالی عوام کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ثابت قدمی سے پر عزم طور پر ڈٹے ہوئے ہیں اور مسلح افواج کے گولے اور بارود بنے ہوئے ہیں“۔ بدقسمتی سے آج پھر ایسے ہی دانشور اور صحافی حضرات بلوچستان کے موجودہ پر آشوب حالات میں وہی پرانے خیالات اور پرانے نغمات کے سروں پر اپنے نئے ترانوں کے ساتھ نغمہ سرا ہیں ۔اللہ رحم کرے ہمارے باقی ماندہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے، آمین۔
حقائق دراصل اس کے برعکس ہیں کیونکہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہیں… انہیں ایک مرتبہ پھر فوجی طاقت کے ذریعے کچل دیا جائے گا… اور ایک مرتبہ پھر بلوچ سردار معافی نامے لکھ کر دوبارہ ہتھیار ڈال کر ماضی کی طرح پھر سے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے، وہ شدیدغلط فہمی کاشکارہیں۔ بدقسمتی سے ایسے عناصر چائنا ،روس ،انڈیا اور دیگر عناصر کی طرح باربار شب خون مارنے والے برطانوی سامراج کے خلاف اسی طرح کے دلائل دے کر اپنے عوام کوگمراہ کرتے رہے کہ خواہ مخواہ اپنے اور اپنے خاندانوں اور گاوٴں ،دیہات اور علاقوں کے عوام کو مزید مروانے کیلئے کیوں جدوجہد کرنے کادرس دے رہے ہو اور مکمل طور پر سامراج کی حکمرانی کے اقتدار کو تسلیم کرکے ان کے تابعین بن کر زندہ رہنے اور جینے کا سامان کرو لیکن آزادی اور غلامی سے نجات پانے والے جانوں پر جانیں دے کر اپنی جدوجہد کرتے رہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بالآخر آزادی ان کا مقدر بنی۔ انہی بنگالیوں کے خلاف یہ تاثر پھیلایا گیا تھا کہ یہ کمزور، چھوٹے قد کے اور بزدل لوگ ہیں اور جب ان پر فوج کشی کی جائے گی تو یہ سب سجدہ ریز ہوجائیں گے لیکن دنیا نے دیکھا اوربین الاقوامی طور پر تسلیم کیا کہ بنگالی آج آزاد قوم ہے…چینی آج آزاد قوم ہے…زار روس کا خاتمہ ہونے کے بعد روسی آج ایک آزاد قوم ہے…تین سے زائد مرتبہ بلوچ قوم شکست کھاجانے کے باوجود آج ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں ہے… اور اکبر بگٹی کی شہادت …بالاچ مری کی شہادت… اور دیگر بلوچ رہنماوٴں کی شہادتوں کے باوجودآج بلوچستان کی صورتحال قطعی مختلف ہے اور بلوچستان کے عوام کی اکثریت آج اپنی جانوں کی قربانی دینے کیلئے تیار ہوچکی ہے ۔ایک چیونٹی بھاری بھرکم ہاتھی کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے کے مصداق کچھ تو سبق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے …اب بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی عملاًکوشش کرنی چاہئے…اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پرانی روش ترک کردینی چاہئے… ”انڈیا کی ایجنسی را … اسرائیل کی موساد… اور امریکہ کی سی آئی اے بلوچ علیحدگی پسندوں کا ساتھ دے رہی ہے“ اس جیسے الزامات ہر گز ہرگز موجودہ مرض کا علاج نہیں کرسکتے۔ لہٰذا حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگرکہیں کسی کی ناک نیچے بھی ہوتی ہے تو اس کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے پاکستان کو بچانے اور باقی ماندہ پاکستان کی سا لمیت کو برقرار رکھنے میں اب وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ پاکستان کی بقا ہی پورے پاکستان اور پاکستانیوں کے استحکام ،ان کی خوشحال زندگیوں اور ملک کی سلامتی کیلئے بہتر ہے ۔خدارا پاکستان یعنی باقی ماندہ پاکستان کو بچالیں، یہی میری تمنا… یہی میری آرزو… اوریہی میری دعا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا کرے،آمین۔