ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ سابق صدر مشرف کا آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل ہونا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی آئین کے کلاز کی شق نمبر2 کا بھی مطالعہ کر لینا چاہئے جس کے تحت ان تمام افراد کو بھی12 / اکتوبر 1999ء میں ہونے والی فوجی کارروائی میں شامل کرنا چاہئے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف کا ٹرائل اور این آر او تمام کے تمام نان ایشوز ہیں جس میں جان بوجھ کر اور ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت عوام کو الجھایا جا رہا ہے جب کہ عوام اور ملک کو درپیش مسائل سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ان کا یہ خیال بھی برمحل اور درست ہے کہ موجودہ حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ ایک منتخب حکومت اپنے منشور کے تحت ملک اور قوم کے معاملات کو چلا سکے۔ اگر موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کی گئی اور جمہوریت کی بساط کو الٹنے کے لئے غیر جمہوری قوتوں کا سہارا لیا گیا تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دراصل پاکستان کا ایک چھوٹا مگر بااثر طبقہ سابق صدر کے ٹرائل کی باتیں رہا ہے، اس میں وہ لکھاری بھی شامل ہو گئے ہیں جن کے بارے میں قارئین کو بھی تحفظات ہیں۔
نیز اگر آئین پاکستان کی شق نمبر2 آرٹیکل 6 کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں ایسے افراد بھی سامنے آئیں گے جنہوں نے 12/ اکتوبر1999ء کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔یہ چھوٹا مگر بااثر طبقہ پرویز مشرف کے شروع ہی سے خلاف تھا۔تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت پرویز مشرف کا ٹرائل کرنے سے اجتناب برت رہی ہے کیونکہ خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اگر حزب اختلاف قومی اسمبلی میں مشترکہ قرارداد لے آئے تو وہ ٹرائل کرنے کا سوچ سکتے ہیں لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوزائیدہ جمہوریت اور سب ہی پارٹیوں میں اتنی سکت ہے کہ وہ سابق جرنیلوں کے خلاف احتسابی کارروائی کر سکیں؟ اور اگر ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو پھر حکومت دو ٹوک الفاظ میں ایسے عناصر کو یہ پیغام دے کہ وہ پانچ سال تک انتظار کریں اور جب وہ حکومت میں آجائیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ دراصل مسلم لیگ (ن) پرویز مشرف کے ٹرائل سے متعلق پروپیگنڈا کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بعض لکھاریوں کے ذریعے اس تاثر کو عوام میں پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے اور کیونکہ عوام کی اکثریت پڑھی لکھی نہیں ہے، وہ ٹی وی مذاکروں کے ذریعے اس نتیجہ پر پہنچ رہی ہے کہ سابق صدر کا ٹرائل ہونا چاہئے حالانکہ ان تمام عناصر کو جو عوام کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پرویز مشرف کے ٹرائل کی باتیں کر رہے ہیں، انہیں شق نمبر2 سے متعلق بھی عوام کو آگاہ کرنا چاہئے تاکہ عوام کو یہ معلوم ہو سکے کہ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے میں سابق صدر اکیلے نہیں تھے۔ مزید برآں جب بھی فوجی حکومت اقتدار سبھالتی ہے ۔ اس کے پس پردہ بعض ٹھوس حقائق ہوتے ہیں جس میں ملک کی سالمیت کو خطرہ اور اکانومی کی زبوں حالی سرفہرست ہوتی ہے۔
چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب کو ماضی کے تلخ حالات کے پس منظر میں اب صاف و شفاف سیاست کرنی چاہئے۔ عوام کے مسائل کے حل کے لئے اور خصوصیت کے ساتھ بلوچستان کے مسئلے پر موجودہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے (جب کہ وہ خود ایسا کہتے رہتے ہیں) تاکہ جمہوریت پنپ سکے اور ملک کی معیشت ترقی کی طرف گامزن ہو سکے ورنہ صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ اس وقت دہشت گردی اور انتہا پسندی نیز خفیہ غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کو سنگین خطرہ لاحق ہو چکا ہے، ہماری فوج شمالی و جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں سے نبردآزما ہے اور ہر روز ہمارے فوجی اپنی جانوں کا نذارنہ پیش کر رہے ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر کیا بعض سیاست دانوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ماضی کے معاملات پر بحث کریں اور معاشرے کو یہ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزاریں، کیونکہ اس طرح قوم کے مابین تھوڑا بہت اعتماد و یکجہتی بھی پارہ پارہ ہو جائے گی جب کہ دشمنوں کو ایک بار پھر پاکستان کو توڑنے کا سنہری موقع مل جائے گا اس لئے مسلم لیگ (ن) کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر پایا جانے والا جذبہ انتقام کی آگ کو سرد خانے میں رکھ دے اور پاکستانی عوام کے مسائل کے لئے حکومت کا ساتھ دے۔ الطاف حسین بھی یہی چاہتے ہیں کہ ماضی کو ایک طرف رکھ کر ہم سب پاکستان کے استحکام کے لئے کام کریں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک مضبوط محاذ بنا کر اس لعنت کو پاکستان سے نکالنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ موثر تعاون کریں تاکہ آئندہ نسلیں امن و سکون کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کر سکیں اور ایک دوسرے کے ساتھ در گزر اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے کو جیو اور جینے دو کے قابل بنا سکیں۔