• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بٹوارے کے بعد ہندوستان میں اردو پر تین بڑے الزام لگے۔ اول یہ کہ اردو ہندوستان کے بٹوارے کی زبان ہے۔ دوم یہ کہ اردو ایک مسلمان زبان ہے۔ سوم یہ کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ ان الزامات کی وجہ سے اردوکو بٹوارے کے بعد ہندوستان میں پندرہ بیس برس بڑی تکلیف میں گزارنے پڑے تھے۔
بٹوارے کے بعد سرحد کے اس پار پاکستان میں اردو پر ہندوستان میں لگائے گئے الزامات کو مثبت صفات کے طور پر فخریہ ترغیب دی گئی اور خوب تشریح کی گئی۔ یعنی ہندوستان میں اردو پر لگائے گئے الزامات کو فخریہ قبول کیا گیا اور پورے پاکستان میں فروغ دیا گیا۔ تصدیقی طور پر اس بات کی تشریح کی گئی کہ یہاں اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ لہٰذا اردو مسلمان زبان ہے اور یہ کہ اردو کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیاتھا۔ یہاں تک کہ ببانگ دہل کہا گیا کہ اردو بولنے والوں نے پاکستان بنایا ہے۔ یہ باتیں پاکستان کے ابتدائی برسوں میں حیران کن لگتی ہیں۔ پاکستان سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاشی، مالی اور انتظامی مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا تھا۔ ایسے میں زبان کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا پاکستان کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ ملک میں بے چینی سی پھیل گئی۔ ہندوستان سے آئی ہوئی بیورو کریسی جن میں آئی سی ایس یعنی انڈین سول سروس کے لوگ شامل تھے۔ یہ پاکستان کو درپیش تمام مسائل کو پس پشت ڈال کر اردو کے درپردہ زبانوں کا معاملہ کیوں لے بیٹھی؟ یہ بات فہم فراست اور سمجھ سے باہر کی بات لگتی ہے۔ اگر اس معمہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بڑے ہی کڑوے حقائق سامنے آتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ہم اس معاملے کی تاریخی پس منظر میں چھان بین کریں۔ہندوستان کے انگریز حکمرانوں نے جب اصولی طور پر قائد اعظم کے دلائل قبول کرتے ہوئے ہندوستان کے بٹوارے اور مسلمانوں کے لئے ایک الگ تھلگ وطن کی ہامی بھر لی تھی۔ تب ہندوستان میں مذہب کے در پردہ سلگنے والی چنگاری آتش نمرود بن کر بھڑک اٹھی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈران کا یہ کہنا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ہندوستان کے بٹوارے کی بات طے ہوتے ہی ملک بھر میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ ان لیڈران کی بات کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات لگتی ہے۔ بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی یہ بات ان کی سیاسی اور سماجی کوتاہ نظری یا سیاسی سماجی کم مائیگی کا ثبوت دیتی ہے۔ انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا۔ جس طرح انگریز سے پہلے ہم مسلمانوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا۔ ہندوستان انگریزوں کا موروثی ملک نہیں تھا۔ ہندوستان صدیوں سے ہندوئوں کا ملک تھا۔ ان کے ملک کا بٹوارہ ہونے جارہا تھا۔ لوگ ایک انچ زمین کے لئے برسہا برس آپس میں قانونی اور غیر قانونی لڑائیاں لڑتے رہتے ہیں۔ یہ تو ایک ملک کا بٹوارہ ہونے جارہا تھا! فسادات تو ہونے تھے۔ فسادات ہوئے اور ایسے وحشی فسادات ہوئے کہ دنیا ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دوسال پہلے گرائے گئے ایٹم بموں کی تباہ کاریاں بھول بیٹھی، سکتہ میں آگئی، اس وقت پاکستان میں موج مستیاں کرنے والے سوچ بھی نہیں سکتے کہ ستر برس پہلے برصغیر پر کیسی قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی تھی۔
ہندوستان سے پاکستان آنے والوں میں بہت بڑی تعداد فساد زدہ علاقوں سے آئی تھی۔ وہ زیادہ تر غریب تھے، ان پڑھ تھے۔ محنت کر کے روزی روٹی کما کر کھانے والے تھے۔ وہ صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے پیدل، بیل گاڑیوں، کھچا کھچ بھری ہوئی بسوں اور ریل گاڑیوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہوئے پاکستان پہنچے تھے۔ دولت مند، سرمایہ دار، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے پانی کے جہازوں اور ہوائی جہازوں میں چڑھ کر پاکستان آئے تھے۔ پاکستان پر حکومت کرنے والے سیاست دان چارٹرڈ جہازوں سے پاکستان پہنچے تھے۔ وہ اپنے ساتھ چیدہ چیدہ بیورو کریٹس اور انڈین سول سروس یعنی آئی سی ایس افسران کو اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاست دان بیوروکریٹس اور آئی سی ایس افسران میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل تھے جنہوں نے ہندوستان کا یہ حصہ جس پر پاکستان بنا تھا، پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ لوگ یہاں کے اصلی باشندوں کے تہذیب و تمدن، رسم و رواج اور زبان سے واقف نہیں تھے۔ سیاست دان اور بیورو کریٹس کراچی دیکھ کر حیران ہوگئے تھے۔ سیاست دانوں مع لیاقت علی خان کے قائد اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ کراچی کو عارضی کے بجائے مرکزی حکومت کا مستقل دارالحکومت بنایا جائے اور سندھ حکومت کو ٹھٹھہ یا حیدرآباد منتقل کیا جائے۔ میں آپ کو دستاویزی بات سنا رہا ہوں۔ ان دنوں مرکزی حکومت کے اجلاس وغیرہ سندھ اسمبلی میں ہوتے تھے۔ سندھ حکومت کی اسمبلی اور دفاتر کے لئے این جے وی گورنمنٹ ہائی اسکول کراچی کا تیسرا فلور یعنی تیسری منزل مختص کی گئی تھی۔ ان دنوں یہ فقیر این جے وی ہائی اسکول میں ظالب علم تھا۔ سندھ حکومت کو ٹھٹھہ یا حیدرآباد منتقل کرنے کی بات جب سندھ اسمبلی کے ایوانوں تک پہنچی تھی تب سندھ اسمبلی میں بڑی جذباتی اور گرما گرم بحث چلی تھی۔ کچھ ارکان سندھ اسمبلی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ پاکستان بننے کے بعد سندھ کا سر یعنی کراچی شہر کاٹ کر سندھ سے الگ کر دیا جائے گا تو ہم پاکستان کے حق میں کبھی ووٹ نہ دیتے۔ یہ دستاویزی اور تحریری باتیں ہیں اور سندھ اسمبلی کے پروسیڈنگ فائلز میں موجود ہیں۔ بہرحال قائد اعظم نے مشورہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
دھونس جمانا بیورو کریٹس کی پرانی عادت ہے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے افسران اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔ تمام مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے انہوں نے سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ سے افواہوں کا جال بچھا دیا۔ بے بس پاکستانی افواہوں کے جال میں پھنستے گئے۔ کچھ اس طرح کی افواہیں اڑائی گئی تھیں۔ مثلاً پاکستان نازک ترین دور سے گزر رہاہے۔ ہندوستان ہر حیلے سے پاکستان توڑنے کے درپے ہے۔ اسلام خطرے میں ہے۔ فسادات کی آگ کا دریا پار کر کے پاکستان پہنچنے والے مسکین، مجبور اور بے بس کراچی کے چپے چپے پر کیمپوں میں پڑے ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر لوگ غریب اور ان پڑھ تھے۔ بیورو کریسی نے انہیں یہ کہہ کر بلکہ یقین دلاکر ہمیشہ کے لئے خاموش اور خوش کر دیا کہ تم لوگ پاکستان کے والی ہو۔ تم اس ملک کے بانی ہو۔ تمہاری بے مثال قربانیوں کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا ہے۔ ان کی فلاح اور بہبودکی بجائے آئی سی ایس کے افسران نے سیاست دانوں کے ساتھ مل کر کراچی میں اربوں کی متروکہ املاک کی آپس میں بندر بانٹ شروع کردی۔

 

.

تازہ ترین