کراچی(جنگ نیوز)قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کا سب سے بڑا حمایتی عمران خان ہے،عمران خان کے بیانات متحدہ اپوزیشن کو نقصان پہنچاتے ہیں، نواز شریف کی طرح عمران خان بھی کٹہرے میں کھڑا ہوا ہے، جب عدالتیں دوسرے ملک تحقیقات کیلئے جائیں گی تو اداروں کی پوزیشن کمزور ہوگی عمران خان پر بھی قومی خزانے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے.
عمران خان نے فارن فنڈنگ کے قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، اگر عمران خان کو مرکز میں اقتدار مل گیا تو لوگ نواز شریف کو بھول جائیں گے،نواز شریف وزیراعظم ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر بات کررہا ہو، نواز شریف کو خطرات ہیں تو انہیں قومی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہئے، جے آئی ٹی ابھی تک شفاف طریقے سے کام کررہی ہے، نواز شریف اگر واقعی سمجھتے ہیں کہ ان کے فون ٹیپ کیے جارہے ہیں تو فی الفور مستعفی ہوجائیں، نواز شریف باعزت طور پر استعفیٰ دے کر نیا وزیراعظم لائیں اور قبل از وقت انتخابات کے بجائے اسمبلی کو مدت پوری کرنے دیں، چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی فتح کا کریڈ ٹ پی سی بی کو بھی جاتا ہے۔
وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے خصوصی گفتگو کررہے تھے۔ میزبان حامد میر نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے انٹیلی جنس بیورو کے بارے میں بہت پریشان کن اور تشو یشنا ک ریمارکس دیئے ہیں، پاکستان کے ریاستی ادار ے جب دوسرے ریاستی اداروں کے بارے میں ایسے ریمارکس دیتے ہیں تو اس کے پیچھے بہت بڑی کہانی ہوتی ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہوتی ہے۔
حامد میر نے مزید کہا کہ لیکن پاکستان کی فتح کے بعد بھارتی میڈیا پر جو باتیں ہورہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ بھارت نے کرکٹ کے کھیل کو جنگ بنادیا تھا اور انہیں شکست جنگ میں ہوئی کھیل میں نہیں ہوئی۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دینا چاہئے جنگ نہیں بنادینا چاہئے، پاکستان نے اپنے بہترین کھیل سے دنیا کی مضبوط ٹیموں کو شکست دی، پاکستان سفارتی محاذ پر جو نہیں کرپاتاوہ ہمارے کھلاڑیوں نے کردکھایا ہے، ہمارے کھلاڑیوں نے پاکستان کا سر فخر سے اونچا کردیا ہے، چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی فتح کا کریڈ ٹ پی سی بی کو بھی جاتا ہے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا سب سے بڑا حمایتی عمران خان ہے، عمران خان کا سیاست میں اپنا طریقہ کار ہے جس پر ان کے ساتھی بھی خوش نہیں ہوتے ہیں، عمران خان کے بیانات متحدہ اپوزیشن کو نقصان پہنچاتے ہیں، نواز شریف کی طرح عمران خان بھی کٹہرے میں کھڑا ہوا ہے، عمران خان پر بھی قومی خزانے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے، عمران خان نے فارن فنڈنگ کے قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، عمران خان اگر نواز شریف کے ساتھ ٹاکرا چاہتے ہیں تو سوچ سمجھ کر آگے چلنا چاہئے، عمران خان کی سیاست پانی میں بلبلہ کی طرح ہے، عمران خان نے چار سال میں خیبرپختونخوا کا جو حال کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے، اگر عمران خان کو مرکز میں اقتدار مل گیا تو لوگ نواز شریف کو بھول جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قومی خدمت کو سیاست سمجھ کر آگے بڑھناچاہتے ہیں،پیپلز پارٹی کے اوپر پہلے بھی ایسا وقت آچکا ہے جب پنجاب میں لوگ چھوڑ کر چلے گئے، اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست نشر نہ کرنے پر قومی اسمبلی کا بائیکاٹ اصولی فیصلہ تھا، اس فیصلے میں اپوزیشن کی مشاورت بھی شامل تھی، حکومت کو ڈر تھا کہ اپوزیشن تقاریر براہ راست دکھائی گئیں تو بجٹ میں جو انہوں نے بڑھکیں ماریں ان کا پول کھل سکتا ہے، ہم بائیکاٹ کرتے نہ کرتے حکومت وہی کرتی جو لکھ کرلائے تھے،اپوزیشن نے بجٹ پراپنا نکتہ نظر عوامی اسمبلی میں پیش کیا جسے میڈیا نے براہ راست نشر کیا، حکومت نے بجٹ سے متعلق اپوزیشن کے اہم پروپوزلز پر کوئی توجہ نہیں دی۔
وزیراعظم کے کٹھ پتلیوں کے بیان پر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف وزیراعظم ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر بات کررہا ہو، کٹھ پتلیوں سے متعلق بیان نواز شریف کے ذہن کی پیداوار نہیں تھا بلکہ انہیں لکھ کر دیا گیا تھا، اگر یہ نواز شریف کی اپنی سوچ ہوتی تو وہ کبھی یہ بات نہیں کہتے، یہ بات افسوسناک ہے کہ نواز شریف سچائی اپنے ذہن سے بیان کرنے کے قابل نہیں ، ابھی بھی لوگ انہیں لکھ کر دیتے ہیں کہ یہی پڑھو اس سے آگے کچھ نہ پڑھو، نواز شریف کو اگر خطرات ہیں تو انہیں قومی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہئے، پہلے بھی جب کٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہلائی گئی تھیں تو اپوزیشن اختلافات کے باوجود حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی اور کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں دوسروں سے چھین کر پارلیمنٹ کو دیدی تھیں۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کا الزام شرمناک ہے کہ جے آئی ٹی وزیراعظم ہاؤس کے ٹیلیفون ٹیپ کررہی ہے، نواز شریف اگر واقعی سمجھتے ہیں کہ ان کے فون ٹیپ کیے جارہے ہیں تو فی الفور مستعفی ہوجائیں، وزیراعظم ہاؤس کے ان الزامات کے بعد نواز شریف کو وزیراعظم رہنے کاحق نہیں ہے، جے آئی ٹی ابھی تک شفاف طریقے سے کام کررہی ہے، نواز شریف جانتے ہیں پاناما کیس میں بچنے کیلئے ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، شریف خاندان کے پاس واحد سپورٹنگ دستاویز قطری شہزادے کا خط ہے جو پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے کچھ ارکان کو قطر بھیجا جارہا ہے اگر ایسا ہوا تو بہت بڑا اسکینڈل بن سکتا ہے، جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کو حصہ سمجھتا ہوں، جب عدالتیں دوسرے ملک تحقیقات کیلئے جائیں گی تو اداروں کی پوزیشن کمزور ہوگی۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ن لیگ کے طاقتور وزیراعظم سے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے، پیپلز پارٹی کی حکومتیں تو بہت کمزور تھیں، ہمارے وزرائے اعظم عدالت میں باادب کھڑے ہوجاتے تھے، ہمارے وزرائے اعظم کو سولی پر چڑھادیا جاتا تھا یا وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے تھے، ن لیگ والے بہت بہادر ہیں جو زمین تنگ کرنے اور جینا حرام کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، ہمارے لوگ ایسا بیان دیتے تو پھانسی پر چڑھادیئے جاتے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو نے کبھی شریف خاندان کا احتساب نہیں کیا، نواز شریف نے ہمیں جیلوں میں ڈالا اور بینظیر بھٹو کو تکلیف دی، اگر پرویز مشرف نے نواز شریف کا احتساب کیا تھا تو اسے کیوں جانے دیا گیا، یہ خوفزدہ تھے انہیں پتا تھا پرویز مشرف کا احتساب کریں گے تو پھنسیں گے، وزیرداخلہ ویسے تو شیر بنتے ہیں پرویز مشرف کے معاملہ پر کمزور کیوں پڑگئے، ن لیگ کا احتساب ہم نے شروع نہیں کیا بلکہ ایک عالمی اسکینڈل کا نتیجہ ہے، کلثوم نواز اور چوہدری نثار قبول کرچکے ہیں 1995ء میں لندن فلیٹ شریف خاندان کے تھے، جسٹس قیوم اور شہباز شریف کی ٹیلیفونک ٹیپس اس وقت ملیں جب ہم اپوزیشن میں تھے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ہم پاناما کیس میں عدالت جانے کے بجائے پارلیمنٹ سے احتساب چاہتے تھے، نواز شریف خود سب سے پہلے اپنے احتساب کی بات کرتے رہے ہیں اب احتساب ہورہاہے تو رورہے ہیں، پرویز مشرف سمیت سب کا احتساب ہونا چاہئے، اس دفعہ دیکھا جائے گا کہ احتساب سب کیلئے یکساں ہے یا نہیں۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اگر سمجھتے ہیں اصل پوزیشن کیا ہے تو باعزت طور پر استعفیٰ دے کر نیا وزیراعظم لے آئیں، نواز شریف قبل از وقت انتخابات کے بجائے اسمبلی کو مدت پوری کرنے دیں، یہ نواز شریف کی پارٹی اور سیاست کیلئے بھی بہتر ہے۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتیں پاکستان کو بھی عراق، لیبیا اور یمن بنانا چاہتی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں بلاواسطہ طورپر پاکستان پر الزام تراشی کی، یہ بدقسمتی ہے کہ پینتیس مسلم ممالک کے اس اتحاد کی صدارت امریکی صدر کررہا تھا جس کی سربراہی پاکستان کا سینئر سپہ سالار کررہا ہے، جس طرح پاکستان کی بے عزتی کی گئی وہ پاکستانی قوم کیلئے بہت مشکل وقت تھا، قطر کے معاملہ پر پاکستان نے ابھی تک اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے۔
میزبان حامد میر نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے انٹیلی جنس بیورو کے بارے میں بہت پریشان کن اور تشویشناک ریمارکس دیئے ہیں، پاکستان کے ریاستی ادارے جب دوسرے ریاستی اداروں کے بارے میں ایسے ریمارکس دیتے ہیں تو اس کے پیچھے بہت بڑی کہانی ہوتی ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہوتی ہے۔حامد میر نے مزید کہا کہ لیکن پاکستان کی فتح کے بعد بھارتی میڈیا پر جو باتیں ہورہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ بھارت نے کرکٹ کے کھیل کو جنگ بنادیا تھا اور انہیں شکست جنگ میں ہوئی کھیل میں نہیں ہوئی۔