• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ابتدائی ایام تھے۔ بھٹو صاحب کا کارنامہ یہ تھا کہ وہ ایک شکست خوردہ قوم کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ بہت چھوٹے چھوٹے اور بامعنی اشارے بروئے کار لاتے تھے۔ صدر بھٹو پاک سیکرٹریٹ کے دورے پر گئے۔ وہاں ہر افسر کے نام کی تختی پر یہ نشاندہی بھی کی گئی تھی کہ صاحب بہادر امپیریل سول سروس کے آئی سی ایس برہمن ہیں یا سینٹرل سپریئر سروس کے سی ایس ایس نودولتیے ہیں یا صوبائی سول سروس کے چھٹ بھیئے۔ بھٹو صاحب نے حکم دیا کہ یہ بے معنی مخفف مٹا دئیے جائیں۔ متعلقہ کارندوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا، حکم کی تعمیل ہو گی حضور۔ کچھ روز بعد بھٹو صاحب کسی اجلاس کے لئے پھر سیکرٹریٹ پہنچے تو دیکھا کہ نام کی ہر تختی پر اس کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا چپکا دیا گیا ہے جس سے پتنگ بنائی جاتی ہے۔ بھٹو صاحب نے غصے سے کہا کہ یہ آئی سی ایس تو پھر نظر آ رہا ہے۔ گرگ باراں دیدہ افسر نے جھک کر کہا، حضور اتنا آئی سی ایس تو نظر آتا رہے گا۔ بس اس واقعہ میں پاکستان کی پوری تاریخ پڑھ لیجئے۔
ہم نے مسلم اقلیت کے تحفظ کے نام پر تقسیم ہند کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اقلیتوں کے لئے آواز اٹھانا گویا ملک دشمنی کے مترادف قرار پایا۔ متروکہ املاک کی لوٹ کھسوٹ میں ہماری اخلاقی قامت ابتدائی زمانے ہی میں بے نقاب ہو گئی تھی۔ ووٹ کے ذریعے حاصل کئے گئے ملک پر ریاستی اداروں نے قبضہ کر لیا۔ آخر چوہدری محمد علی، غلام محمد، اسکندر مرزا اور ایوب خان میں ریاستی قوت کے سوا کیا نقطہ اشتراک تھا؟ مسلم لیگ نے حزب اختلاف کی گردن پر گھٹنا رکھا، سول سروس نے مسلم لیگی قیادت کو زیر کردیا۔ پھر عسکری ادارے نے سول سروس سے اختیار چھین لیا۔ عدلیہ نے توپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔ بڑے صوبے نے چھوٹے صوبوں پر کاٹھی ڈال لی۔ صوبائی حقوق مانگنے والوں نے اپنے علاقوں میں زرعی اصلاحات سے انکار کر دیا۔ مردوں نے عورتوں پر بالادستی قائم کر لی۔ تو پاکستان کا حقیقی نقشہ یہ قرار پایا کہ یہاں رسوخ، مراعات یافتہ رتبے، طاقت اور زور آوری کا سکہ چلے گا۔ جو معاشرہ اقلیتوں، عورتوں اور غریبوں کو تحفظ نہیں دے سکتا، وہاں انصاف کی فصل پر برگ و بار نہیں آتا۔ انصاف کے نام پر طاقتور کمزور کی ناک رگڑتا ہے۔ رسوخ کے اپنے اپنے گروہ اور حلقے تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ ریاست اور شہری کے درمیان براہ راست تعلق قائم نہ ہو پائے تو گروہی مفادات کی بنیاد پر عصبیت کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ہم نے پاکستان نام کا ملک بنا لیا لیکن اسے قوم کی شکل نہیں دے سکے۔ ملک اور قوم میں وہی فرق ہے جو مکان اور گھر میں ہوتا ہے۔ مکان اینٹ پتھر سے بنتا ہے اور گھر رشتوں سے تعمیر ہوتا ہے۔
اصول یہ ہے کہ کسی ادارے یا گروہ کی قدر پیمائی اس کے بہترین نمونوں سے متعین ہوتی ہے، بدترین مثالوں سے نہیں۔ صحافت ہی کو لیجئے۔ پاکستان میں صحافت کی قامت چراغ حسن حسرت کے علم، ضمیر نیازی کی دیانت داری اور نثار عثمانی کی پیشہ ورانہ مہارت سے طے پائے گی۔ دوسری طرف صحافت میں بکاؤ قلم کی ثقافت بھی موجود رہی ہے۔ سول سروس کی فہرست میں شیخ منظور الٰہی اور ایس ایم اکرام جیسے نام بھی تو شامل ہیں۔ ہماری وکالت میں محمود قصوری اور عدلیہ میں دراب پٹیل کا نام بھی تو آتا ہے۔ دوسری طرف بار روم میں کرسیوں پر کھڑے ہو کر دھینگا مشتی کرنے والے وکیل بھی موجود ہیں۔ ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ ہم انصاف کی بنیاد پر کوئی اخلاقی میثاق مرتب نہیں کر سکے۔ نتیجہ یہ کہ صحافت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا وکالت، سرکاری ملازمت ہو یا کاروبار، ہم باہم اعتماد کے بحران سے دوچار ہیں۔ ہم یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ قومی خود مختاری کا مطلب من مانی کرنے کی کھلی چھٹی نہیں ہوتا۔ جمہوریت کے نام پر شہریوں سے کھلواڑ نہیں کی جا سکتی۔ عدل کے نام پر لٹکائی گئی ترازو میں طاقت کے پلڑے سے جھولتے رہنا انصاف کا منصب نہیں۔
انصاف کا کیسا کڑھا ہوا شعور ہم نے پروان چڑھایا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی انتہا پسندی ہمیں صاف نظر آتی ہے۔ سولہ سترہ برس کی ہندو بچیوں کے مذہب تبدیل کر کے مسلمان مردوں سے شادی میں ہمیں کوئی کھوٹ نظر نہیں آتا۔ البتہ بالغ مسلمان لڑکی کے اپنی مرضی سے شادی کرنے کو ہم معاشرتی اقدار پر حملہ سمجھتے ہیں۔ مشال خان کے قتل میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ اہانت مذہب کے قانون کو ذاتی غرض کے لئے اشتعال کا ہتھیار بنایا گیا،کوئی اس پر اعلان کرتا ہے کہ قانونی سقم پر نظر ثانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلا کی تمکنت سے کم نگاہی بولتی ہے… یہ صاحب اس زعم میں ہیں کہ انہیں ملک کے ہر گوشے سے مشتعل ہجوم میسر آ سکتے ہیں۔ ابھی کچھ برس پہلے ہم نے کالے کوٹ کے نام پر ملک کے نجات دہندہ دریافت کئے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ انصاف کے یہ نئے محافظ تو اختیار کی بندر بانٹ میں اپنا حصہ مانگ رہے تھے۔ کبھی عدالت کا دروازہ بند کر کے جج کو دھمکایا جاتا ہے، کبھی مخالف وکیل پر حملہ کیا جاتا ہے۔ کبھی عدالت کے احاطے میں پولیس اہلکاروں اور صحافیوں کو پیٹ دیا جاتا ہے۔ ایک 25 سالہ خاتون عائشہ بی بی اپنے دو سالہ بچے کے ہمراہ سات ماہ سے لاپتہ ہے۔ اس کی بوڑھی اور بیوہ ماں انصاف مانگنے لاہور ہائی کورٹ میں آتی ہے۔ وکیلوں کا ایک جتھا اس بڑھیا اور اس کے وکیلوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ صاحب یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ پیمرا کے پنجاب شکایت کمیشن کے اجلاس پر حملہ آور ہونے والے وکیلوں کی رہنمائی بھی ایک ایڈوکیٹ کر رہا تھا۔ صادق اور امین کے جھگڑے میں حکمران جماعت کے آٹھ ارکان کی نااہلی کی درخواست پر بھی اسی ایڈوکیٹ کا نام جگمگا رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ کسی کی بولتی بند کرنے کے لئے کوئی الزام ہی کافی ہو تو سپریم کورٹ کے جج صاحب پر حملہ آور ہونے والا انتہائی طاقتور مسند نشین کے ایوان میں ضرور مدعو کیا جائے گا۔ انصاف کے نام پر ہر سوال کا جواب مانگا جائے گا، البتہ جے آئی ٹی کی تصویر باہر لانے والے کی شناخت پوچھنا منع ہو گا۔ اگر ہم رویتا مینگھواڑ کو انصاف نہیں دے سکتے، بلقیس زرینہ کی بیٹی اور نواسا بازیاب نہیں کر سکتے، لاپتہ نوجوان خاتون صحافی زینت شہزادی کا اتا پتا معلوم نہیں کر سکتے تو پھر مقصود بٹر یا اظہر صدیق سے کیا غرض، طلال چوہدری اور فواد چوہدری کی بحث چھوڑیئے، ایک مزے کی حکایت سنئے۔ جنرل ضیا الحق کا دور تھا۔ ٹبی تھانے کے قریب سرکاری نمبر پلیٹ والی ایک گاڑی مچلتی، لہراتی، جھومتی آ رہی تھی۔ ناکے پر پولیس والوں نے روک لیا۔ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں نوجوان نے بتایا کہ محتسب اعلیٰ کی گاڑی ہے۔ پولیس والے نے حیران ہو کر پوچھا اور آپ کون ہیں؟ جواب ملا، ’’میں ان سے بھی اعلیٰ‘‘۔

 

.

تازہ ترین