• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویلز میںجوئے کی لت کے شکار افراد کو سپورٹ حاصل نہیں، کانفرنس میں انکشاف

لندن (پی اے) ویلز میں جوئے کے عادیوں کے لیے سپورٹ کی کمی پائی جاتی ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جوئے کی عادت کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اس معاملے پر تبادلہ خیال کے لیے بدھ کو ایک کانفرنس میں ماہرین، سیاستدانوں اور عادی افراد نے اظہار خیال کیا۔ ایونٹ آرگنائزر وائن فورڈ الس اوون نے جن کا تعلق لونگ روم چیرٹی سے ہے کہا کہ یہ عادت پبلک ہیلتھ پرابلم بن چکی ہے۔ کارڈف کی31سالہ عادی سارہ گرانٹ نے کہا کہ ان کے خیال میں مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ خاص طور پر منشیات اور شراب کی عادات کے مقابلے میں سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا اور مردوں کے لیے کچھ علاج موجود ہے، خواتین کے لیے نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ15سالہ عادت کے باعث جیل جانے اور بے گھر ہونے کے باوجود کوئی سپورٹ حاصل نہیں ہوئی۔ اگر وہ شراب یا منشیات کی عادی ہوتیں تو رہائشی بحالی حاصل کرچکی ہوتیں۔ السس اوون نے کہا کہ یہ بھی کوئی موثر حل نہیں ہے۔ اکتوبر2016ء میں گیمبلنگ کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس عادت کے شکار مرد و خواتین میں بہت تھوڑا فرق ہے اور5فیصد ویلش خواتین خطرے کا شکار ہیں، جبکہ سپورٹ کا حال یہ ہے کہ یہ قدیم زمانے کی لگتی ہے اور سارا زور شراب اور منشیات پر ہے، جس کے باعث جوئے کی عادت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ حالانکہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ 55تا64سالہ افراد جوئے کی کسی نہ کسی قسم میں مصروف ہیں۔ السس اوون نے کہا کہ جب سب سے پہلے ہم نے اس مسئلے پر آواز اٹھائی تو ہم اکیلے تھے اور ویلز میں مسئلے کے سنگین ہونے کے باوجود ہمارے پاس شہادت کا فقدان تھا اور اب دو سال بعد ہمیں شہادت حاصل ہوگئی ہے۔ بہت سارے عادی افراد نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ یہ ہمارے دور کا ایک کلیدی چیلنج ہے۔ ویلش حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ مسئلہ منفی صحت اور سماجی اثرات کا حامل ہوچکا ہے اور بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر کسی مسئلے کا شکار نہیں۔ تاہم جوئے کی عادت کا شکار ہیں اور اس لیے جبکہ جوئے کے خلاف ریگولیشن وضع نہیں کیا جاتا ہم نے اس مسئلے کو نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششوں کا عزم کر رکھا ہے۔ کانفرنس میں جوئے کے بارے میں ریسرچ کے نتائج پیش کیے جائیں گے جو سوان سی یونیورسٹی نے فورسز ان مائنڈ ٹرسٹ کے ساتھ کی ہے۔

تازہ ترین